بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے شوہر سے نکاح کیے بغیرمطلقہ ثلاثہ کے ساتھ رہنے والے سے قطع تعلقی کا حکم


سوال

میرے ماموں نے چار پانچ گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی کو غصہ میں آ کے تین دفعہ کہا طلاق۔طلاق۔طلاق۔اسی رات انکی بیوی اپنے بھائی کے ساتھ اپنے آ بائی گاؤں چلی گئی۔اور پھر اپنے بیٹے کے ساتھ دوبارہ گھر واپس آ گئی۔لیکن ماموں اپنے دوسرے بھائی کے گھر چلے گئے۔اور وہاں رہنے لگے۔اس دوران انہوں نے ایک مفتی صاحب سے اس کےمتعلق رائے لی جنھوں نے گواہوں سے تصدیق کے بعد فرمایا کہ طلاق واقع ہو چکی ہے اور حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے۔پھر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت کے حکم سے تجدید نکاح کر لیا۔اب ہم ان کا سوشل بائی کاٹ کر رہے ہیں تو کیا ہمارا یہ عمل درست ہے۔کیونکہ انہوں نے عدالت میں کوئی طلاق کا گواہ پیش نہیں کیا اور فیصلہ اپنے حق میں لے لیا ہے۔ان سے قطع تعلق کیسا ہے؟

جواب

 صورتِ مسؤلہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً  صحیح ہے تو ایسی صورت میں سائل کے ماموں کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی سائل کے ماموں کا تین طلاقیں دینے کے باوجودمطلقہ  بیوی کو ساتھ رکھناسخت گناہ اورحرام ہے اور چاروں مذاہب کے متفقہ فیصلہ کے  خلاف ہے۔مطلقہ ثلاثہ کو اپنے پاس رکھنے والاشخص حرام کاری کامرتکب ہے، ایسے شخص کوراہِ راست پر لانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیارکرناچاہیے،سمجھانے کے باوجودایساشخص جب تک باز نہیں آتااور علیحدگی اختیا نہیں کرتا تو اس کے توبہ کرنے تک  اس سے میل جول  اور تعلقات ختم کردینےچاہیے۔

ایسے لوگ جو علانیہ گناہوں کاارتکاب کرنے والے ہوں اوراپنے عمل سے باز نہ آتے ہوں ان سے میل جول،بات چیت ترک کردیناشریعت میں ثابت ہے،لہذا اصل ہمدردی یہی ہے کہ انہیں راہِ راست پرلانے اور دیگرلوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے ،ایسے لوگوں کے ساتھ  تعلق قائم رکھ کر ہمدردی کرنا  گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے۔

فتح الباری میں ہے:

''( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى ) أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها''.

(فتح الباری،ج:10،ص:497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

﴿وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖ ۭ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ﴾(۶- الانعام:۶۸)

ترجمہ:" اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجا؛ یہاں تک کہ وہ کوئی اور بات میں لگ جائیں اور اگر تجھ کو شیطان بھلادے، تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھ۔"(بیان القرآن، آیت نمبر:۶۸) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں