بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر نیت کے میقات سےآگے بڑھنے والے حضرات کاجدّہ سے عمرے کی نیت کرکے احرام باندھنے کا حکم


سوال

میراتعلق گوجرانوالہ پاکستان سے ہے۔میں کچھ دن پہلےکام کےسلسلہ میں سعودی عرب آیاہوں ،میری منزل مقصود تبوک تھی ،جبکہ میں جدہ ایئرپورٹ پر اتراتووہاں ایک دوست مجھےلےکرآیاجوکہ جدہ ہی میں رہتاہے . ہم نےاسی دن عمرہ کی نیت کی اورعمرہ اداکیا،جبکہ کچھ احباب بول رہےہیں کہ "آپ نے جب پاکستان سےنیت نہیں کی تو آپ تین دن بعد عمرہ کرتے،اس لیے چونکہ آپ نےتین دن انتظارنہیں کیا،لہذاآپ پر دم واجب ہوگیاہے "۔اس صورتحال میں عمرہ اوردم کاکیاحکم ہے؟ براہ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب ارسال فرماکرثواب دارین حاصل کریں!

جواب

واضح رہے کہ جو حضرات حج یا عمرہ  کے لیے مکہ  مکرمہ جارہے ہو ں ان پر لازم ہے کہ وہ شریعت  کے مقرر کردہ مواقیت سے  احرام کی نیت کے بغیر آگے نہ بڑھیں،  ورنہ ان پر دم (یعنی ایک بکرے کی قربانی ) لازم ہوگی۔اور اہلِ پاکستان کا میقات براستہ ہوائی سفر  قرن ا لمنازل ہے ۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں میقات سے آگے بڑھتے وقت  سائل کی نیت عمرہ ادا کرنے کی نہیں تھی،  بلکہ تبوک جانا تھا،  جدّہ پہنچ کر سائل نے وہیں سے عمرہ کی نیت کر کے عمرہ ادا کیا ہے،  اس  لیے سائل پر کوئی دم نہیں ہے اور  عمرہ بالکل درست ادا ہوا۔اور جدّہ پہنچ کر  عمرہ کی ادائیگی کے  لیے تین  دن  انتظار   کرنے کا شرعًا کوئی حکم نہیں۔  جو احباب یہ کہہ رہےہیں کہ "آپ نے جب پاکستان سےنیت نہیں کی تو آپ تین دن بعد عمرہ کرتےاس لیے  چوں کہ آپ نےتین دن انتظارنہیں کیا؛  لہذاآپ پر دم واجب ہوگیاہے " ان  کی یہ بات  بالکل  درست نہیں ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المواقيت التي لا يجوز أن يجاوزها الإنسان إلا محرما خمسة: لأهل المدينة ذو الحليفة ولأهل العراق ذات عرق، ولأهل الشام جحفة ولأهل نجد قرن، ولأهل اليمن يلملم، وفائدة التأقيت المنع عن تأخير الإحرام عنها كذا في الهداية........... ومن كان أهله في الميقات أو داخل الميقات إلى الحرم فميقاتهم للحج والعمرة الحل الذي بين المواقيت والحرم ولو أخر الإحرام إلى الحرم جاز كذا في المحيط."

(کتاب المناسک ، الباب الثاني في مواقيت الإحرام ، ج: 1 ، ص: 221 ،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"فإن دخل مكة بغير إحرام ثم خرج فعاد إلى أهله ثم عاد إلى مكة فدخلها بغير إحرام، وجب عليه لكل واحد من الدخولين حجة أو عمرة؛ لأن كل واحد من الدخولين سبب الوجوب.

فإن أحرم بحجة الإسلام جاز عن الدخول الثاني إذا كان في سنته، ولم يجز عن الدخول الأول؛ لأن الواجب قبل الدخول الثاني صار دينا، فلا يسقط إلا بتعيين النية، هذا إذا جاوز أحد هذه المواقيت الخمسة يريد الحج أو العمرة أو دخول مكة أو الحرم بغير إحرام، فأما إذا لم يرد ذلك، وإنما أراد أن يأتي بستان بني عامر أو غيره لحاجة فلا شيء عليه؛ لأن لزوم الحج أو العمرة بالمجاوزة من غير إحرام لحرمة الميقات تعظيما للبقعة وتمييزا لها من بين سائر البقاع في الشرف والفضيلة، فيصير ملتزما للإحرام منه، فإذا لم يرد البيت لم يصر ملتزما للإحرام فلا يلزمه شيء."

(کتاب الحج ، فصل بيان مكان الإحرام ، ج:     2       ، ص: 163 ، ط:دار الکتب العلمیہ  بیروت )

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں