بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر ایجاب و قبول کے ہونے والا نکاح


سوال

قاضی نے دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکے سے ایک دفعہ  اس کا نام ، اس کے والد کا نام ،  لڑکی کا نام اور اس کے والد کا نام  پوچھا اور لڑکے سے مہر کے ساتھ ایجاب کروایا اور لڑکی سے  قبول نہیں کروایا گیا، کیانکاح منعقد ہوگیا؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  دو گواہوں یعنی دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب اور قبول ہوا ہو لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قاضی نے لڑکے سے ایجاب کروایا اور لڑکی سے یا لڑکی کے وکیل سے قبول نہیں کروایا تو اس صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا اور اگر لڑکی کے وکیل سے قبول کروایا تو نکاح درست ہوگیا اور اسی طرح اگر لڑکی نے  قاضی کو اپنا وکیل بنایا اور اس سے کہا کہ میرا نکاح اس کے ساتھ کروادیں  بعد ازاں مجلس نکاح میں قاضی نے کہا کہ میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح فلاں  کے ساتھ منعقد  کیا اور شوہر سے قبول کروایا تو  اس صورت میں  بھی شرعاً نکاح منعقد ہوگیا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:267، ط:بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن النكاح والبيع ونحوهما، وإن كانت توجد حسا بالإيجاب والقبول، لكن وصفها بكونها عقودا مخصوصة بأركان وشرائط يترتب عليها أحكام، تنتفي تلك العقود بانتفائها وجود شرعي زائد على الحسي، فليس العقد الشرعي مجرد الإيجاب والقبول ولا الارتباط وحده بل هو مجموع الثلاثة وعليه فقوله: وينعقد أي النكاح أي يثبت ويحصل انعقاده بالإيجاب والقبول."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:9، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)

المحیط البرہانی میں ہے:

"في «الأصل» : إذا وكلت المرأة رجلا أن يزوجها فزوجها على مهر صحيح أو فاسد أو وهبها لرجل بشهود، أو تصدق بها على رجل وقبل ذلك الرجل جاز النكاح، أما إذا زوجها على مهر صحيح فظاهر، وكذلك إذا زوجها على مهر فاسد؛ لأن فساد التسمية لا أثر لها في إفساد عقد النكاح، وكذلك إذا وهبها أو تصدق؛ لأنه أتى بمعني التزويج إلا أنه ترك التسمية، ولكن ترك التسمية في هذا الباب ليس بضائر، كما لو باشرت بنفسها وتركت التسمية.وإذا وكلته أن يزوجها من رجل ويكتب لها كتاب المهر؛ فزوجها ولكن لم يكتب لها كتاب المهر جاز؛ لأنه مأمور بشيئين بالنكاح وكتابة كتاب المهر، وقد أتى بأحدهما وترك الآخر وترك بعض المأمور به لا يوجب خللا في المأتي به."

(کتاب النکاح، الفصل الثامن في الوكالة بالنكاح، ج:3، ص:40، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں