بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر قاف کے نقطوں کے طلاق لکھنا


سوال

ایک آدمی نے بیوی کومیکے جانے سے منع کیا وہ باز نہیں آرہی تھی تو خاوند نے ایک کاغذ پر تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق اس طرح سے لکھا کہ ق کے نقطے نہیں ڈالے،  بقول خاوند کے کہ " میں نے محض ڈرانے کی غرض سے ایسا کیا اور طلاق سے بچنے کے لیے نقطے نہیں ڈالے اس تحریر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا اور نہ ہی زبان سے کچھ کہا،  خاوند حلفاً یہ کہہ رہا ہے کہ میری غرض ڈرانا دھمکانا تھا تبھی الفاظ غلط لکھے اگر طلاق ہی دینا مقصود ہوتی تو میں زبانی بول سکتاتھا یا طلاق کے لیے مکمل وصحیح الفاظ پر مشتمل واضح الفاظ میں مکمل جملہ لکھ سکتاتھا۔

جواب

 مذکورہ  لفظ  'طلاق بغیر قاف کے نقطوں کے ' طلاق کے بارے میں صریح نہیں ہیں،   لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی مذکورہ شخص نے مذکورہ لفظ لکھتے وقت طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،  اور ان دونوں کا ازدواجی  رشتہ بدستور قائم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى.

 مطلب من الصريح الألفاظ المصحفة

(قوله: و يدخل نحو طلاغ و تلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: و منه الألفاظ المصحفة و هي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثًا. و زاد في النهر إبدال القاف لامًا. قال ط: و ينبغي أن يقال: إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف اهـ."

( كتاب الطلاق،  مطلب من الصريح الألفاظ المصحفة، ج:3، ص:248، ط: سعيد)

اللباب في شرح الكتاب" میں ہے:

" والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا وشتمًا ولايصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا ورداً ولايصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح."

( کتاب الطلاق، 3 / 44،ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144501101912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں