بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیل کے خصیے کا بطورِعلاج بیچنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

بیل کے خصیے بیچنا جائز ہے  ؟ جب کہ اس سے دوائی بناتے ہیں ۔

جواب

بیل کے خصیے حلال جانور کے ان اجزاء میں شامل ہیں جن کا کھانا مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا بیل کے خصیے کا کھانا تو مکروہ تحریمی ہے، اس لیے کھانے کے لیے فروخت کرنے سے گریز کرنا چاہیے، لیکن چوں کہ بطورِ دوا استعمال کی گنجائش ہے، اس لیے بطورِ دوا اس کی خرید و فروخت جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(كره تحريما) وقيل تنزيها والأول أوجه (من الشاة سبع الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر)".

(رد المحتار، مسائل شتّی، ج:6 /ص:749،ط:سعید)

وفيه أيضاً:

 والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع مجتبى، واعتمده المصنف وسيجيء في المتفرقات.

وفي الشامية: يجوز بيع ‌الحيات إذا كان ينتفع بها للأدوية، وما جاز الانتفاع بجلده أو عظمه أي من حيوانات البحر أو غيرها

(رد المحتار، مطلب في بيع دودة القرمز، ج:5 / ص: 68 ، 69، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وكل منتفع به شرعا، في الحال أو في المآل، وله قيمة. . جاز بيعه، وإلا فلا . وقال الحصكفي: جواز البيع يدور مع حل الانتفاع".

(الموسوعة الفقهية الكويتية، ج:9 / ص:155، ط: دارالسلاسل - الكويت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويجوز بيع الحيات إذا كان ينتفع بها في الأودية وإن كان لا ينتفع بها لا يجوز والصحيح أنه يجوز بيع كل شيء ينتفع به كذا في التتارخانية".

(الفتاوى الهندية، كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه ومالا يجوز، ج:3 / ص:114، ط: رشيدية)

مجمع الأنہر میں ہے:

"لأن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع وحرمة الانتفاع بها، وقال بعضهم: إن بيع الحية يجوز إذا انتفع بها للأدوية".

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، كتاب البيوع، مسائل شتي في البيع، ج:2 / ص:108، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں