بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجرت متعن نہ ہونے کی صورت میں اجارہ کا حکم


سوال

میرے بھائی نے مجھے پیسے دیے تھے،  یہ کہہ کر کے آپ اس کے مالک ہو ،جو کرنا ہے کرو،  تو میں نے ان پیسوں سے بھتیجوں کے لیے سوزوکی خریدی،  بات یہ طے ہوئی کہ جو پیسے کماؤ گے اس کا ادھا مجھے دو گے اور ادھا تم لوگ رکھوگے،  وہ لوگ مجھے میرا حصہ نہیں دے رہے تھے،  انہی پیسوں سے انہوں نے تین منزلہ گھر بنا لیا،  اور میں نے ان سے پیسے نہیں مانگے،  کیوں کہ اس وقت مجھے ضرورت ہی نہیں تھی،  اب ان بھتیجوں کے اس تین منزلہ گھر میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں، اگر گھر میں میرا حصہ نہیں بنتا تو سوزوکی کے نفع میں سے آدھے کا مطالبہ کر سکتا ہوں یا نہیں؟

 (سوزوکی میری تھی، بھتیجوں نے گھر خریدنے کے لیے بیچ دی۔ )

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ معاملہ اجارہ کا معاملہ ہے، لیکن اجرت متعن نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز  تھا، اب سائل اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا، اور اجرتِ مثل نصف آمدنی سے زیادہ نہ ہو۔ باقی سوزوکی آپ کے بھتیجوں کے پاس امانت تھی، اس کو فروخت کرنا جائز نہیں تھا،  لہذا مذکورہ سوزوکی لوٹانا ان کے ذمہ ہے، اگر آپ کے بھتیجے سوزوکی  فروخت کر چکے ہیں تو اس کی قیمت ان کے ذمے ہوگی، البتہ ان کےمذکورہ گھر میں آپ کا کوئی حصہ نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وهو أن تكون الأجرة مالا متقوما معلوما وغير ذلك مما ذكرناه في كتاب البيوع.

والأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي صلى الله عليه وسلم «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان وجملة الكلام فيه أن الأجر لا يخلو إما إن كان شيئا بعينه وإما إن كان بغير عينه....وإن كان بغير عينه فإن كان مما يثبت دينا في الذمة في المعاوضات المطلقة كالدراهم، والدنانير والمكيلات، والموزونات، والمعدودات المتقاربة، والثبات لا يصير معلوما إلا ببيان الجنس، والنوع من ذلك الجنس، والصفة والقدر إلا أن في الدراهم، والدنانير إذا لم يكن في البلد إلا نقد واحد لا يحتاج فيها إلى ذكر النوع، والوزن ويكتفى بذكر الجنس ويقع على نقد البلد، ووزن البلد وإن كان في البلد نقود مختلفة يقع على النقد الغالب وإن كان فيه نقود غالبة لا بد من البيان فإن لم يبين فسد العقد."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی انواع شرائط رکن الاجارۃ، ج :4، ص:194، ط:دار الکتب العلمیۃ)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"( المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها.... (المادة 607) لو تلف المستأجر فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن."

(الكتاب الثاني: في الإجارات، ‌‌الباب الثامن في بيان الضمانات،  ‌‌الفصل الثاني: في ضمان المستأجر،ص: 112ط:نور محمد )

امداد الفتاوی میں ہے:

"مشترکہ مشین میں ایک شریک دوسرے شریک کو اپنا نصف حصہ مشین کا کرایہ پر دیتا ہے اور کرایہ نصف آمدنی ٹھہراتا ہے سو یہ صورت اجارہ کی شرعا جائز نہیں بلکہ کرایہ معین کرنا چاہیے پھر خواہ آمدنی کم ہو یا زیادہ ہو اور جتنی مدت اس شرط مذکور پر کام کیا گیا ہے اس کا کرایہ باقاعدہ اجر مثل دیا جائے گا مگر یہ اجر مثل آمدنی واقعی کہ نصف سے زائد نہ ہو۔ "

 ( ج:3، ص:396، ط:مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں