میرا ایک دوست کے ساتھ کار کا سودا آٹھ لاکھ روپے میں طے ہوا، اس نے رقم ادا کرنے کے لیے پندرہ دن کی مہلت مانگی اور بیعانہ کے طور پر بیس ہزار روپے جمع کرادیے، اور طے پایا کہ اگر پندرہ دن بعد بقیہ رقم ادا نہ کر سکا تو بیعانہ کی رقم ضبط کر دی جائے گی، بعد ازاں مقررہ وقت پر حسبِ وعدہ باقی رقم کی ادائیگی نہ ہوسکی اور یوں معاہدہ ختم ہوگیا اور بیعانہ کی رقم ضبط کر لی گئی، پوچھنا یہ تھا کہ فریقین کےمعاہدے کے تحت ضبط کی گئی رقم شرعی حساب سے جائز ہے یا ناجائز ، جب کہ بیعانہ دینے والا فریق رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کر رہا۔
بیعانہ کی رقم خرید کردہ چیز کی قیمت کا حصہ ہوتی ہے، اس کا لینا دینا جائز ہے، البتہ اگرکسی وجہ سے سودا مکمل نہ ہوسکے تو یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے، اس کا ضبط کرلینا اور واپس نہ کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ فریقِ ثانی کی طرف سے اس کی واپسی کامطالبہ نہ ہو۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
عن عمرو بن شعیب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان. رواه مالك وأبوداؤد وابن ماجه".
وفي الهامش:(قوله: "بيع العربان" وهو أن يشتري السلعة ويعطي البائع درهماً أو أقلّ أو أكثر على أنه إن تمّ البيع حسب من الثمن وإلا لكان للبائع ولم يرجعه المشتري، وهو بيع باطل؛ لمافيه من الشرط والغرر.
( کتاب البیوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الثاني، صفحہ: 248 ط: قدیمي)
حجة الله البالغة میں ہے:
"ونهى عن بيع العربان أن يقدم إليه شيء من الثمن، فإن اشترى حسب من الثمن، وإلا فهو له مجانا وفيه معنى الميسر."
(البيوع المنهي عنها، ج: 2، صفحہ: 167، ط: دار الجيل، بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201417
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن