ہم نے اس سال مالٹے کا باغ ایک پارٹی کو 26لاکھ کا بیچا جس میں انہوں نے ہاتھ لگانے سے پہلے 6لاکھ بیعانہ کا دیا ،لیکن جب ان کو بعد میں نقصان نظر آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم 6 لاکھ چھوڑتے ہیں، آپ اپنا باغ کسی اور کو بیچ دیں تو کیا یہ 6 لاکھ ہمارے لیے درست ہیں ؟
بیعانہ کی رقم خرید کردہ چیز کی قیمت کا حصہ ہوتی ہے، اس کا لینا دینا جائز ہے، البتہ اگرکسی وجہ سے سودا مکمل نہ ہوسکے تو یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے، اس کا ضبط کرلینا اور واپس نہ کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ فریقِ ثانی کی طرف سے اس کی واپسی کامطالبہ نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں بیچنے والے کا سودا ختم کرنے والے کو چھ لاکھ روپے واپس کرنا لازم ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
عن عمرو بن شعیب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان. رواه مالك وأبوداؤد وابن ماجه".
وفي الهامش:(قوله: "بيع العربان" وهو أن يشتري السلعة ويعطي البائع درهماً أو أقلّ أو أكثر على أنه إن تمّ البيع حسب من الثمن وإلا لكان للبائع ولم يرجعه المشتري، وهو بيع باطل؛ لمافيه من الشرط والغرر.
( کتاب البیوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الثاني، صفحہ: 248 ط: قدیمي)
حجة الله البالغة میں ہے:
"ونهى عن بيع العربان أن يقدم إليه شيء من الثمن، فإن اشترى حسب من الثمن، وإلا فهو له مجانا وفيه معنى الميسر."
(البيوع المنهي عنها، ج: 2، صفحہ: 167، ط: دار الجيل، بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508100176
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن