بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع میں اقالہ کے لیے جانبین کی رضامندی ضروری ہے


سوال

ہماری  مارکیٹ میں کچھ لوگ ادھار کپڑا خرید کر کچھ رقم مقررہ وقت پر ادا کرتے ہیں،پھر باقی رقم کی ادائیگی میں  ٹال مٹول کرتے ہیں اور بائع کو تنگ کرتے ہیں،اس کپڑے میں سے اچھا مال فروخت کرکے باقی مال بائع کو ثمنِ اول پر واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ثمنِ اول پر واپس نہیں کروگے تو کم قیمت پر واپسی آپ کے لیے جائز نہیں ہے، اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا بائع پر ثمنِ اول پر واپس کرنا لازم ہے؟حالاں کہ ثمن اول پر واپسی کی صورت میں بائع کا نقصان ہوتاہے، کیوں کہ جب کپڑے کے اچھے کلر ختم ہوجاتے ہیں یا اس کا ڈیزائن پرانا ہوجاتا ہے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ادھار پر خرید وفروخت کا معاملہ  طے  ہوجانے کے بعد، مال وصول کر کے اچھا مال فروخت کرکے باقی مال بائع کو واپس کرنا شرعاً درست نہیں،بائع پر اس کا واپس لینا لازم نہیں،البتہ اگر وہ برضا وخوشی واپس لینا چاہےتو یہ شرعاً اقالہ ہے، اس میں  ثمن اول پر ہی واپس لے گا، اس میں  کمی بیشی   جائز نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن من شرائطها إتحاد المجلس ورضا المتعاقدين۔

و في الرد : (قوله: ورضا المتعاقدين) لأن الكلام في رفع عقد لازم، وأما رفع ما ليس بلازم فلمن له الخيار بعلم صاحبه لا برضاه بحر"

(کتاب البيوع، باب الإقالة ، ج: 5 ،ص :121 ،ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد۔

(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ"

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم ،ج :7 ،ص :334 ،ط: دارالفکر لبنان)

وفیہ ایضاً:

" الإقالة جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الأوّل فإن شرط أکثر منه أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول۔"

(کتاب البیوع ،باب الإقالة،ج: 6،  ص :486 ،ط: دارالفکر لبنان )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں