بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع کے ارکان و شرائط


سوال

بیع کے ارکان و شرائط کیا ہیں؟

جواب

بیع کے دو ارکان ہیں :

ایک ایجاب و قبول اور دوسرا تعاطی  ، یعنی لینا اور دینا۔

بیع کے انعقاد کی شرائط میں سے یہ ہے کہ :

1. بیع کرنے والا عاقل اور تمیزدار ہو۔

2.  دو آدمیوں کا موجود ہونا؛ کیوں  کہ ایک آدمی کا خریدار اور فروخت کنندہ ہونا درست نہیں۔

3. بیع میں قبول ، ایجاب کے موافق ہو۔

4.  مبیع اور ثمن  (شرعًا) مال کے قبیل سے ہوں، یعنی وہ چیز شریعت میں مالِ متقوم ہو، چنانچہ شراب ، خنزیر ، خون اور خالص گوبر وغیرہ کی بیع صحیح نہیں ہو گی۔

5.  مبیع موجود ہو، معدوم نہ ہو۔

6.  مبیع اور ثمن  معلوم و متعین ہوں۔

7. جو چیز فروخت کی جارہی ہے اس کا فروخت کنندہ کی ملکیت میں ہونا، چناں چہ جو چیز ابھی تک ملکیت میں نہیں آئی، یا چوری کا سامان ہے، یا آزاد انسان ہے، اسے  فروخت کرنا بھی درست نہیں۔

8. جو چیز فروخت کی جارہی ہے، بائع کا اس پر قبضہ متحقق ہونا، خواہ وکیل کے ذریعے ہو۔

9- بائع اور مشتری ایک دوسرے کا کلام سننے والے ہوں۔

10- ایجاب و قبول ایک مجلس میں ہو۔

ان کے علاوہ بھی بیع کے نفاذ،بیع کے صحیح ہونے ،اور لازم ہونے کی شرائط بھی فقہاء نے ذکر فرمائی ہیں، جن کی تفصیل کے لیے فتاوی ہندیہ کتاب البیوع ملاحظہ  فرمائیں۔

الفتاوى الهندية - (19 / 353):

"وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء ....أما شرائط الانعقاد فأنواع منها في العاقد وهو أن يكون عاقلا مميزا كذا في الكافي والنهاية ...ومنها في العقد وهو موافقة القبول للإيجاب بأن يقبل المشتري ما أوجبه البائع بما أوجبه ...ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لا ينعقد متى عدمت المالية هكذا في محيط السرخسي ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم ...وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه ... و منها سماع المتعاقدين كلامهما ...ومنها في المكان وهو اتحاد المجلس بأن كان الإيجاب والقبول في مجلس واحد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں