میں سافٹ وئیر ڈویلپر ہوں اور ایک کمپنی کا اونر ہوں، ہمارے ایک محترم کلائنٹ نے ہمیں ایک سافٹ وئیر بنانے کا کہا جس کا ایک تخمینہ میں نے لگا کر دیا، اس کی رقم تقریباً 3 لاکھ اور 50 ہزار روپے تھی، وہ کام مکمل کر کے وقت پر دیا ،مگر رقم ادا کرنے سے پہلے کلائنٹ نے کچھ اضافی کام بتائے اور کہا کہ جو رقم ان کی بنتی ہے، بتا دیں میں ادا کر دوں گا، میں نے ایک لاکھ مزید اس اضافی کام کی مزدوری بتائی اور کام کی تکمیل پر وہ رقم خوشی سے ادا کر دی گئی، اس دوسرے کام کا وقت طے نہیں تھا مگر مختصر مدت میں یہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اور میں نے کلائنٹ کو بتا دیا کہ اب 3 ماہ تک ہماری طرف سے مکمل فری Maintenance کا وقت شروع ہو رہا ہے، یعنی اگر کوئی خرابی ہو تو اس کو ٹھیک کر کے دینے کا میں پابند ہوں ،مگر اس کے بعد ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، الحمد للہ وہ وقت بھی مکمل ہوا۔
سافٹ وئیر کی تکمیل کے تقریباً ایک سال بعد مجھ سے رابطہ کیا گیا کہ ہم کچھ مزید کام کروانا چاہتے ہیں اور کچھ نئے فیچر ز بنوانا چاہتے ہیں جو اسی پرانے سافٹ وئیر میں شامل کیے جائیں گے، چوں کہ کلائنٹ کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا ،لہذا میں نے مشروط حامی بھر لی اور شرط یہ رکھی کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اب اتنا عرصہ بعد اس سافٹ وئیر کا Code نئی ٹیکنالوجی کے مطابق اپڈیٹ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ لہذا انتظار کریں۔ ہم چند ہفتوں کی محنت کے بعد کوڈ کو واپس ور کنگ حالت میں لے آئے، اس کام کا جو بل بنا وہ کلائنٹ کو دیا اور انہوں نے ادا کر دیا۔اب چوں کہ کوڈ ورکنگ حالت میں آگیا تھا تو کلائنٹ نے خوشی کا اظہار کیا کہ اب جو بھی اضافی فیچرز سافٹ وئیر میں متعارف کروانا چاہیں تو وہ متعارف یقیناً کروائے جا سکتے ہیں، اب اپڈیٹس کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور کلائنٹ اپنے سافٹ وئیر میں کبھی مختلف فیچر ز شامل کرواتے رہے اور کبھی پچھلی اپڈیٹ والے فیچرز نکلواتے رہے، ہم بھی ہر کام اور فیچر کے الگ سے پیسے بتاتے رہے اور وہ ہر کام کے اختتام پر ہمیں پیسے ادا کرتے رہے، الحمد للہ وہ بھی مطمئن اور ہم بھی خوش تھے،آخر میں چند مزید فیچرز کی ایک لسٹ دی گئی اور کچھ رقم شاید35000 روپے طے کی گئی، وہ اندازاً 8 یا9 کام تھے، وہ بھی الحمد للہ مکمل ہوئے، مگر ایک فیچر کے بارے میں ان کی طرف سے پیغام آیا کہ وہ فیچر ٹھیک کام نہیں کر رہا، ہمارے چیک کرنے پر وہ فیچر بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا، جس پر دو یا تین مرتبہ ان کو ثبوت فراہم کیے گئے اور پھر ایک آن لائن ویڈیو میٹنگ کی، جس میں میں نے ان کو وہ فیچر Working حالت میں مکمل چیک کروایا، شاید اس موقع پر کوئی بات ایسی ہوئی کہ جس کی وجہ سے کلائنٹ غصہ میں آگئے اور تقاضہ کیا کہ ان کو پیسے واپس کیے جائیں اور نہ صرف یہ کہ اس فیچر کی مزدوری ہی صرف واپس کی جائے جو تقریباً5 ہزار بنتی ہے، بلکہ ابتداء سے یعنی تقریباً5 سال پہلے سے لے کر اب تک کی تمام کاموں کی رقوم واپس کی جائیں، ورنہ نتائج کے لیے تیار ہو جاؤں۔ (کچھ سخت دھمکیاں دیں)۔اب حضرت مفتی صاحب عرض یہ ہے کہ ہمیں ان کی دھمکیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں، مگر آپ سے شرعی راہ نمائی لینا چاہتے ہیں کہ کہیں ہماری جانب سے زیادتی نہ ہو رہی ہو اور کوئی ایسی حق تلفی نہ ہو رہی ہو کہ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنے، اس کے لیے چند باتیں استفسار کے لیے عرض ہیں:
1۔ ان کی ڈیمانڈ ہے کہ تمام کاموں کی تمام رقوم واپس کی جائیں، سوال یہ ہے کہ تمام کاموں کی تمام رقوم جو پچھلے5 سالوں میں وہ کرتے رہے، ہم ان کو لوٹانے کے پابند ہیں؟ جب کہ تمام کام خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کر کے ان کو دیے جاتے رہے، تبھی تو وہ اس کام کا معاوضہ بھی دیتے رہےاور آگے مزید کام بھی دیتے رہے۔
2۔ اگر سارے کاموں کی ساری رقوم (مزدوریاں) واپس کرنا ہمارے ذمہ لازم نہیں آتا تو کیا ان کو آخری کام جس پر تنازعہ پیدا ہوا، اس کی رقم واپس کر نالازم ہے یا نہیں؟جب کہ وہ کام بھی مکمل ہے اور ورکنگ حالت میں ان کو چیک کروایا جا چکا ہے اور اس کا اعتراف ان کی طرف سے آچکاہے کہ وہ فیچر بھی ٹھیک ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے اپنے کلائنٹ کے مطالبے پر ان کے تمام کام خوش اسلوبی سے کرکے ان کے حوالے کردیے، جس کا وہ آپ کو معاوضہ بھی دے چکے، تو ایسا کرنے سے یہ معاملات مکمل ہوچکے، آپ کے کلائنٹ ان تمام چیزون کے مالک بن گئے جو آپنے ان کو بنا کردیں، اور ان کاموں کے عوض ملنے والی رقم کے آپ مالک بن چکے، لہٰذا اب آپ یہ تمام رقم ان کو واپس لوٹانے کے پابند نہیں ہیں، ان کے لیے مذکورہ رویہ اختیار کرنا قطعاً ناجائز ہے، اگر وہ دھمکی دے کر یہ رقم آپ سے ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بالکل ناحق اور حرام ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:" خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔"
حدیث شریف میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، ج:٢، ص:٨٨٩، رقم:٢٩٤٦، ط:المكتب الإسلامي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود، ج:٤، ص:٦١، ط:سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع."
(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:٣، ص:٣، ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101021
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن