بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع فضولی کا حکم


سوال

  میرا ایک دوست ہے جو بکریوں کا  کاروبار کرتا ہے،  میں نے اس کو ایک بکری پالنے کے لیے دی،  اس نے کہا کہ میں  یہ آپ  کے  لیے بلا مزدوری پالوں گا،  اب تقریبًا 1 سال بعد میں نے اس سے بکری کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے وہ بکری فروخت کی ہے،  اب 1سال کی بکری کی جتنی قیمت ہوگی  میں آپ کو اتنے پیسے دوں  گا۔ کیا میرے لیے یہ پیسے لینا جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ کے دوست کا آپ کی بکری آپ کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں تھا،تاہم اگر اس نے بکری فروخت کردی ہے اور بکری موجود ہے تو آپ کو اختیار ہے چاہے آپ اس سودے کی جازت دیں تو جس قیمت پر بکری فروخت ہوئی ہے اس رقم کے بلا کم وبیش آپ حقدار ہیں،اور اگر آپ اس سودے کی اجازت نہیں دیتے تو پھر بکری آپ کو واپس ملے گی۔

لیکن اگر بکری ہی موجود نہیں ہے تو آپ کو اختیار ہے ،چاہے آپ اپنے دوست کو اس کی قیمت کا ضامن ٹھہرائیں یا خریدار کو اس کی قیمت کا ضامن ٹھہرائیں،خریدار کو ضامن ٹھہرانے کی صورت میں خریدار اپنی ادا کردہ رقم (قیمت فروخت)  اپنے بائع (آپ کے دوست)  سے وصول کرے گا۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"يشترط في إجازة صاحب المال، أو وكيله، أو وليه، أو وصيه، أربعة أشياء:

وجود البائع والمشتري والمجيز، وكون المبيع والثمن قائمين للإجازة، وقوع الإجازة قبل الفسخ، وفي الإجازة بشرط وجود ذلك الشرط وإذا كان الثمن من العروض وجوده فإذا هلك أحد الأربعة الأولى، أو لم يوجد شرط من البواقي فالإجازة غير جائزة.

تفصيل الهلاك:

1 - هلاك البائع: فإذا أجاز صاحب المال بيع الفضولي بعد وفاة البائع؛ فلا تكون الإجازة جائزة.

2 - هلاك المشتري: فإذا أجاز المالك البيع بعد وفاة من اشترى من البائع الفضولي؛ فلا يكون صحيحا.

3 - هلاك المجيز: إذا توفي صاحب المال قبل أن يجيز بيع الفضولي وأجاز وارثه؛ فلا تصح الإجازة.

4 - هلاك المبيع: ويكون ذلك على وجهين:

الوجه الأول: الهلاك الحقيقي كتلف المبيع.

الوجه الثاني: الهلاك الحكمي كتغير المبيع تغيرا يعد به شيئا آخر.

فلو كان المبيع قماشا، مثلا: فتفصيله وجعله ثوبا في حكم الهلاك؛ فلا تصح الإجازة فيه بعد ذلك أما صباغته؛ فليست في حكم الهلاك.

(الهندية في الباب الثاني عشر من البيوع، رد المحتار في الفضولي) ولو تلف المبيع قبل القبض كان البيع منفسخا (راجع المادة 293) أما إذا تلف في يد المشتري بعد القبض وقبل الإجازة فالمالك يضمن قيمته من شاء من البائع الفضولي، أو المشتري.

(انظر المادة 910) وإذا اختار المالك تضمين أحدهما صار الآخر بريئا؛ فليس له بعدئذ الرجوع عليه في شيء.

فإن ضمن المشتري كان البيع باطلا وللمشتري حينئذ أن يرجع على البائع الفضولي بما دفع إليه من الثمن."

(کتاب البیوع،الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه،ج1،ص405،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں