بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع بالوفا کا حکم


سوال

 ایک پراپرٹی کی (خرید وفروخت کرنے والی)کمپنی ہے جو مختلف بلڈرز کے ساتھ کام کرتی ہے۔یہ کمپنی اپنے انویسٹرز کو آفر کرہی ہے کہ آپ ہم سے ایک ہمارا پروجیکٹ جو کہ ابھی لاؤنچ ہوا ہے اس کی کوئی فائل لے لیں انویسٹرز ریٹ پر، اور بعد میں تقریباً 8 سے 12ماہ کے اندر ہم ہی آپ سے واپس لے لیں گے، آپ کو باہر اوپن مارکیٹ میں بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔یہ سب بات ایک معاہدہ میں لکھی جائے گی ۔ کمپنی 10000 کے ریٹ کے حساب سے بیچے گی انویسٹرز کو اور 10500 سے لیکر 10800 تک کے حساب سے واپس خریدے گی۔ ویسے تو اس میں نہ وقت مقرر ہے اور نہ ہی واپسی کی رقم، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے ؟راہنمائی فرمائیں ۔

جواب

 شرعی اعتبار سے پلاٹنگ شدہ زمین کی فائل کی خرید و فروخت  کا حکم یہ ہے کہ اگر زمین کا نقشہ بنا لیا گیا ہو اور نقشہ میں  پلاٹوں کی تعیین ہو چکی ہو تو اِس صورت میں اس پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہو گی،اور اگر پلاٹوں کی تعیین نہیں ہوئی تو خرید و فروخت اُس وقت جائز ہو گی جب سودا کرتے وقت یہ کہا جائے کہ  اس رقبہ اراضی میں سے اتنا  حصہ فروخت کر دیا  یا ان پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر دیا،لیکن  صورت مسئولہ میں اگر پلاٹ کی فائل  مذکورہ بالا وضاحت کی رو سے جواز کی صورت کے ساتھ فروخت کی جائے تب بھی مذکورہ کمپنی  کا انویسٹر کو اس شرط کے ساتھ فائل کو فروخت کرنا کہ وہ انویسٹر سے دوبارہ خرید ے گی یہ شرط فاسد ہے جو کہ  شرعا جائز نہیں ہے،البتہ اگر پہلے سے واپس لینے کا کوئی معاہدہ نہ ہو اور پلاٹ خریدنے والا  کمپنی کو وہ پلاٹ عام طریقہ پر  بیچ دے تو یہ صورت جائز ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"قال (ومن اشترى عشرة أذرع من مائة ذراع من دار أو حمام فالبيع فاسد عند أبي حنيفة، وقالا: هو جائز، وإن اشترى عشرة أسهم من مائة سهم جاز في قولهم جميعا) لهما أن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار فأشبه عشرة أسهم. وله أن الذراع اسم لما يذرع به، واستعير لما يحله الذراع وهو المعين دون المشاع، وذلك غير معلوم، بخلاف السهم.

(قوله ومن باع عشرة أذرع من مائة ذراع من دار أو حمام فالبيع فاسد عند أبي حنيفة - رضي الله عنه -، وقالا: هو جائز) وبه قال الشافعي - رحمه الله - (وإن اشترى عشرة أسهم من مائة سهم) منها (جاز في قولهم جميعا) ومبنى الخلاف على أن المؤدى من عشرة أذرع من مائة ذراع معين أو شائع فعندهما شائع كأنه باع عشر مائة وبيع الشائع جائز اتفاقا كما في بيع عشرة أسهم من مائة سهم، وعنده مؤداة قدر معين، والجوانب مختلفة الجودة فتقع المنازعة في تعيين مكان العشرة ففسد البيع، فلو اتفقوا على أن مؤدى عشرة أذرع من مائة من هذه الدار شائع لم يختلفوا، ولو اتفقوا على أنه متعين لم يختلفوا، فهو نظير اختلافهم في نكاح الصابئة مبني على أنهم يعبدون الكواكب ولا كتاب لهم أو لهم كتاب، فلو اتفقوا على الثاني اتفقوا على جوازه، أو على الأول اتفقوا على عدم الجواز، فالشأن في ترجيح المبني فأبو حنيفة يقول (الذراع اسم لما يذرع به) ومعلوم أنه لم يرد بالمبيع عشرا من الخشبات التي يذرع بها فكان مستعارا لما يحلها، وما يحله معين فكان المبيع معينا مقدرا بعشرة أذرع (بخلاف) عشرة أسهم؛ لأن السهم اسم للجزء الشائع فكان المبيع عشرة أجزاء شائعة من مائة سهم."

(کتاب البیوع،ج6،ص275،ط؛دار الفکر)

مجلة الأحكام العدلية  میں ہے:

"(المادة 198) : يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم.

(المادة 200) : يلزم ‌أن ‌يكون ‌المبيع ‌معلوما عند المشتري.

(المادة 203) : يكفي كون المبيع معلوما عند المشتري فلا حاجة إلى وصفه وتعريفه بوجه آخر."

(الکتاب الاول فی البیوع، الباب الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالمبيع،  ‌‌الفصل الأول: في حق شروط المبيع وأوصافه، ص:41، ط: نور محمد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها ‌أن ‌يكون ‌المبيع ‌معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان."

(کتاب البیوع، ‌‌الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:3، ط: رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"البيع الذي تعارف أهل زماننا احتيالا للربا وسموه بيع الوفاء هو في الحقيقة رهن وهذا المبيع في يد المشتري كالرهن في يد المرتهن لا يملكه ولا يطلق له الانتفاع إلا بإذن مالكه وهو ضامن لما أكل من ثمرة واستهلك من شجرة والدين ساقط بهلاكه في يده إذا كان به وفاء بالدين ولا ضمان عليه في الزيادة إذا هلكت من غير صنعه وللبائع استرداده إذا قضى دينه ولا فرق عندنا بينه وبين الرهن في حكم من الأحكام كذا في الفصول العمادية وعليه فتوى السيد أبي شجاع السمرقندي وفتوى القاضي علي السغدي ببخارى وكثير من الأئمة على هذا كذا في المحيط.

وصورته أن يقول البائع للمشتري بعت منك هذا العين بدين لك علي على أني متى قضيت الدين فهو لي أو يقول البائع بعتك هذا بكذا على أني متى دفعت لك الثمن تدفع العين إلي كذا في البحر الرائق والصحيح أن العقد الذي جرى بينهما إن كان بلفظ البيع لا يكون رهنا ثم ينظر إن ذكرا شرط الفسخ في البيع فسد البيع وإن لم يذكرا ذلك في البيع وتلفظا بلفظ البيع بشرط الوفاء أو تلفظا بالبيع الجائز وعندهما هذا البيع عبارة عن بيع غير لازم فكذلك، وإن ذكرا البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزم الوفاء بالوعد كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب البیوع،الباب العشرون في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة،ج3،ص209،ط؛دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں