بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدنامی کے ڈر سے اسقاط حمل کروانا


سوال

ایك آدمی نے نكاح سے پہلے ایك عورت كی ساتھ زنا كیا، اس كے چند مہینے كے بعد نكاح كیا، اب بچے كی عمر تین مہینہ اور نكاح کی  مدت دس یا پندرہ دن ہے ،لوگوں كے اندر شہرت ہوچكی ہے كہ یہ بچہ زنا كا ہے، اور نكاح كے چھ مہینہ كے اندر وضع حمل كا قوی امكان ہے، سو اب میاں بیوی اس بچہ كو ساقط كرنا چاہتے ہیں، كیا شریعت میں اس كی گنجائش ہے یا نہیں؟ براہ كرم جواب عطا فرمایئے۔

جواب

مذکورہ شخص کا نکاح سے پہلے ہی زنا کرنا اور زانیہ کا اس کو اپنے اوپر قدرت دینا ناجائز و حرام تھا، دونوں اپنے اس فعل پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار  کریں،لوگوں کے طعنوں یا معاشرے کے ڈر سے حمل ساقط کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـقال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(كتاب النكاح  باب نکاح الرقیق ،مطلب فی اسقاط الحمل،،3 / 176، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں