بدل خلع میں کتنا مال لینا جائز ہے؟ یعنی زوجین باہمی رضامندی سے چاہے جتنا لے سکتے ہیں یا کوئی مقدار متعین ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات و ناچاقی کا سبب شوہر ہو تو ایسی صورت میں دیانةً خلع کے عوض میں شوہر کے لیے کچھ لینا حلال نہیں، تاہم اگر وہ پھر بھی مہر واپس لے لیتا ہے تو اس پر اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، اور اگر نا چاقی و اختلاف کا سبب بیوی ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے مہر کے طور پر دیے گئے مال سے زیادہ وصول کرنا مکروہ ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ فَإِنْ أَخَذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمُ وَلَزِمَ حَتَّى لَا تَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.
وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ.
( الْبَابُ الثَّامِنُ فِي الْخُلْعِ وَمَا فِي حُكْمِهِ ،الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي شَرَائِطِ الْخُلْعِ وَحُكْمِهِ، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن