بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدل خلع میں مہر (زیورات) کے بجائے قیمت ادا کرنا


سوال

میری شادی 2011-11-23 میں   حق مہر ڈھائی تولہ  زیور  کے عوض میں ہوئی، اور ڈیڑھ تولہ زیور کا سیٹ میرے والد کی طرف سے بھی تھا،نکاح کے بعد شوہر کے نشہ کرنے اور کام نہ کرنے کی وجہ سے میرا اس سے اکثر جھگڑا رہتا تھا ، جس کی وجہ سے میرے والد نے میرا حق مہر اور اپنا دیا ہوا زیور کا سیٹ بیچ کر اس سے  ایک  مکان خریدا، اور میرا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے میری والدہ  کے نام کرلیا  ، پھر تین سال بعد میری شوہر سے لڑائی ہوئی اور خلع  لیا، جبکہ خلع کے وقت میں نے حق مہر معاف نہیں کیا تھا،لیکن میرے والد نے خلع کے عوض میرے شوہر کو ڈھائی تولہ زیور کی قیمت دی تھی، اب چونکہ مجھے شدید ضرورت ہے لیکن میرے والد ، والدہ اور بھائیوں کا کہنا  ہیں کہ تمھارا اس مکان  میں( جو میرا حق مہر اور والد کی طرف سے دئیے گئے سیٹ کے بدلہ میں لیا گیا ہے) کوئی حق نہیں ہے ،برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کو شوہر کی طرف سے حق مہر کے بدلے   ملنے والا ڈھائی تولہ  زیوراور سائلہ کے والد کی طرف سے بطور ہبہ ملنے والا ڈیڑھ  تولہ زیور  کی مالک سائلہ ہی تھی ،جب سائلہ کے والد نےوہی زیور بيچ كر اس کے بدلے مكان خریدليا  تو اس  مکان کی مالک بھی سائلہ    ہی  ہے، اور سائلہ کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مکان والدہ کے نام پر کرنے سے ماں اس مكان کی مالکہ نہیں بنی،سائلہ کے والد كا  سائلہ  كی اجازت كے بغیر  اس کی طرف سے ان کے شوہر کو ڈھائی تولہ زیور کی قیمت دینا تبرع(احسان)ہے  جس کی وجہ سے    والد اس مكان كا مالک  نہیں  ہوا اور نہ والدکو ان پيسوں كا اپنی بیٹی(سائلہ)سے مطالبہ کا حق   حاصل ہے ،لہذا وہ مکان بدستور  سائلہ ہی کی ملکیت ہے اور اس کے والد ، والدہ  اور بھائیوں کا یہ کہنا کہ " اس مکان میں تمہارا کوئی حق نہیں" شرعاً درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويمنع الرجوع فيها) حروف (دمع خزقه) يعني الموانع السبعة الآتية۔۔۔(والخاء خروج الهبة عن ملك الموهوب له)."

(کتاب الھبة ، باب الرجوع فی الہبۃ، ج:5، ص:703،699،ط:سعید)

الرد مع الدر ميں ہے:

"وإن بغيره لا يرجع) لتبرعه۔۔۔(قوله: وإن بغيره) أي وإن ‌كفل ‌بغير أمره لا يرجع."

(كتاب الکفالۃ، ج:5، ص:315، ط:سعيد)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144308101033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں