بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بدکاری سے بچانے کے ذہنی معذور لڑکے کی نس بندی کرانا


سوال

 جناب والا میں دینی تعلیم کا حامل آدمی ہوں،   میرا ایک بیٹا ہے جو ذہنی طور پر معذور ہے، جب کہ جسمانی طور پر بہتر ہے،  اس کے ہاتھ کانپتے ہیں اور اس کے زیر ناف بال بھی میں خود صاف کرتا ہوں۔ اس کی عمر 14 سال ہے اور بلوغت شروع ہوچکی ہے۔ میری ایک ٹانگ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کو گھر میں مستقل طور پر  پابند رکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمارے علاقے میں اس طرح کے معذور افراد کو غلط کاری یعنی عورتیں زنا کے لیے استعمال کرتی ہیں،  یہ خطرہ مجھے پریشان کیے رکھتا ہے؛  کیوں کہ وہ جنسی طور پر قوی ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا میں اس کی نس بندی کروا سکتا ہوں؛  تاکہ اس خطرے سے بچ سکوں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ خطرہ کے احتمال کے پیشِ  نظر یقینی طور پر حرام کام کا ارتکاب کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے   کہ آدمی کی نس بندی کروانا  ناجائز اور حرام ہے، لہذا  اپنی استطاعت کی حد تک بچے کی  تربیت اور نگرانی کریں اور قریبی اعزہ میں سے تندرست، خیرخواہ لوگوں سے تعاون حاصل کرکے اس کی حفاظت کریں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگتے رہیں۔ 

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (18 / 208):

"عن قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ الله رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُ قَالَ كُنَّا نَغْزُوا مَعَ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَيْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ فَقُلْنا أَلا نَخْتَصِي فَنهانا عَنِ ذَلِكَ فَرَخَّصَ لَنَا بَعْدَ ذَلِكَ أنْ نَتَزَوَّجَ المَرْأَةَ بِالثَّوْبِ ثُمَّ قَرَأ: {يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أحَلَّ الله لَكُمْ} (الْمَائِدَة: 87) .

قَوْله: (أَلا نختصي)، من خصاه إِذا نزع خصيته يخصيه خصاءً. قَوْله: (فنهانا عَن ذَلِك) ، يَعْنِي: عَن الاختصاء، وَفِيه تَحْرِيم الاختصاء لما فِيهِ من تَغْيِير خلق الله تَعَالَى، وَلما فِيهِ من قطع النَّسْل وتعذيب الْحَيَوَان."

وفيه أيضًا (20 / 72):

"(ردّ رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم، على عُثْمَان بن مَظْعُون التبتل) أَي: لم يَأْذَن لَهُ فِيهِ حِين اسْتَأْذن فِي ذَلِك، وَيُقَال: معنى: رد، نهي عَن التبتل وَقد ذكرنَا مَعْنَاهُ الْآن. قَوْله: (وَلَو أذن لَهُ) أَي: لَو أذن النَّبِي صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم. لعُثْمَان بن مَظْعُون (لاختصينا) من اختصيت، إِذا فعلت ذَلِك بِنَفْسِك. وَكَانَ مناسبا أَن يَقُول: أذن لَهُ لتبتلنا، فَعدل إِلَى: اختصينا، إِرَادَة الْمُبَالغَة أَي: لَو أذن لَهُ لبالغنا فِي التبتل حَتَّى الاختصاء، وَكَانَ التبتل من شَرِيعَة النَّصَارَى فَنهى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أمته عَنهُ ليكْثر النَّسْل ويدوم الْجِهَاد.

وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ يُقَال: يلْزم من جَوَاز التبتل عَن النِّسَاء جَوَاز الخصاء، وَهُوَ قطع عضوين بهما قوام النَّسْل، وَفِيه ألم عَظِيم لِأَنَّهُ رُبمَا يُفْضِي إِلَى الْهَلَاك. وَهُوَ محرم بالِاتِّفَاقِ، ثمَّ أجَاب بِأَن ذَلِك لَازم من حَيْثُ إِن مُطلق التبتل يتضمنه، فَكَأَن هَذَا الْقَائِل ظن أَن التبتل الْحَقِيقِيّ الَّذِي يُؤمن مَعَه شَهْوَة النِّسَاء وَهُوَ الخصاء، وَأخذ بِأَكْثَرَ مَا يَقع عَلَيْهِ الِاسْم، وَقَوله: فِيهِ ألم عَظِيم، مُسلم لَكِن يصغر فِي جنب صِيَانة الدّين، كَقطع الْيَد للأكلة والكي والبط وَنَحْوهَا. وَقَوله: رُبمَا يُفْضِي إِلَى الْهَلَاك، غير مُسلم لِأَن وُقُوع الْهَلَاك مِنْهُ نَادِر، وخصاء الْحَيَوَان يشْهد لذَلِك. وَأجَاب النَّوَوِيّ عَن ذَلِك بِأَن مَعْنَاهُ: لَو أذن فِي الِانْقِطَاع عَن النِّسَاء وغيرهن من ملاذ الدُّنْيَا لاختصينا لدفع شَهْوَة النِّسَاء لتمكننا من التبتل، قَالَ: وَهَذَا مَحْمُول على أَنهم كَانُوا يظنون جَوَاز الاختصاء باجتهادهم وَلم يكن ظنهم هَذَا مُوَافقا، فَإِن الاختصاء فِي الْآدَمِيّ حرَام مُطلقًا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں