بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدکار شخص والدین کے مغفرت کی دعاء کرسکتا ہے؟


سوال

کیا ایک بدکار اور گناہ گار شخص کی اپنے فوت شدہ والدین کے لیے کی جانیوالی دعا مغفرت قبول ہو گی ؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو دعاء مانگنے کا حکم دیاہے،اسی طرح  والدین کے ساتھ حسن و سلوک کرنے کا حکم فرمایا ہے، ساتھ  ساتھ ہرایک مسلمان کے لیے اللہ تعالی کی ہر قسم کی نافرمانی اورتمام اقسام کے گناہوں سے بچنا ضروری اور لازمی ہے، لیکن تب بھی اگر کسی قسم کے گناہ کا ارتکاب ہوجاۓتو فوراًندامت اور پشیمانی کے ساتھ اللہ تعالی  کے حضور  اس گناہ پر  معافی مانگنی چاہیے، یعنی توبہ استغفارکرنا چاہیے، اور اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید اور مایوس نہیں   ہونا چاہیے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا رشاد ہے:

"وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ."(سورة غافر:60)

ترجمه:اور تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا، جو لوگ (صرف) میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ (بيان القرآن)

معارف القرآن  میں مفتي شفيع صاحب رحمه الله نے  تحریر فرمایا ہے:

قبولیت دعا کا وعدہ :
آیت مذکورہ میں اس کا وعدہ ہے کہ :جو بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے، وہ قبول ہوتی ہے، مگر بعض اوقات انسان یہ بھی دیکھتا ہے کہ دعا مانگی ،وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس کا جواب ایک حدیث میں ہے: جو حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ: مسلمان جو بھی دعا اللہ سے کرتا ہے اللہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، اور قبول فرمانے کی تین صورتوں میں سے کوئی صورت ہوتی ہے ایک یہ کہ جو مانگا وہی مل گیا، دوسرے یہ کہ اس کی مطلوب چیز کے بدلے اس کو آخرت کا کوئی اجر وثواب دے دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی مگر کوئی آفت و مصیبت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی۔ (مسند احمد۔ مظہری)
قبولیت دعا کی شرائط :
آیت مذکورہ میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں ۔ یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہو گئی۔ نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا ہے۔ ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے جیسا کہ حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے اور آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یا رب کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی۔ (رواہ مسلم)

(فمن اظلم،سورہ غافر،آيت نمبر:60، ط: مكتبہ معارف القرآن)

قرآن کریم میں والدین کے متعلق اللہ  تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23)وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا(24)رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا(25)"(سورة بني اسرائل:23،24،25)

"ترجمہ:اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرواگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کر دیتا ہے۔" (بیان القرآن)

اللہ تعالی مزید قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا  ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." (سورۃ الزمر:53)

ترجمہ:آپ کہہ دیجیئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے (کفر و شرک کر کے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو بالیقین خدا تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرما دے گا، واقعی وہ بڑا بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔ (بیان القرآن)

الغرض   حاصل یہ ہے کہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالی اس کو معاف کرنے پر قادر ہے، بلکہ خود ہی فرماتا ہے کہ میری  رحمت سے مایوس نہ ہو،لہذا کوئی  مسلمان کتنا بڑاہی گناہ گارکیوں نہ ہو، اس کو اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے تمام گناہوں پر  صدق دل سے شرمندہ ہوکر اللہ تعالی  کے حضور توبہ استغفار کریں، رب کریم کی ذات امید ہے کہ وہ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔

اسي طرح  اللہ رب العزت والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے لیے دعاءمانگنے  کا حکم دے رہے ہیں ،لہذا اگر بدکار شخص اپنے مرحوم  والدین کے لیے  دعا کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ رب العزت کے حکم کو ہی بجالارہا ہے، لہذا اس سے ثابت ہوا کہ گناہ گار اور بدکار  مسلمان شخص بھی   مرحوم والدین کے لیے دعاءِ مغفرت کرسکتا ہے، چناں چہ  اللہ تعالی ذات سے امید ہے کہ اگر بدكار شخص اپنے والدين كی بخشش و مغفرت  كے ليے  اللہ تعالی سے دعاء کرے گا تو  اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ دعاء قبول فرمائیں گے۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144506100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں