بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بدکار بیوی اگر بدکاری سے توبہ کرچکی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

 ایک خاتون جسے اس کے شوہر نے کسی مرد کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیا ہو، اب اس شوہر کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ اور اس عورت کے لیےکیا حکم ہے جب کہ وہ توبہ بھی کر چکی ہو؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں بیوی نے بدکاری کرکے بہت بڑا گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور اپنے اور اپنے شوہر پر بہت بڑا ظلم کیا ہے رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے  کہ’’ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی"ایک دوسری حدیث میں ہے:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:" زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا"، تاہم اب چوں کہ بیوی توبہ کرچکی ہے اور اپنے کیے ہوئے بدکاری پر نادم ہےاور شوہر سے آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کرنے کا پختہ وعدہ کرتی ہے اور معافی بھی مانگ لیتی ہے تو اس کو معاف کردے اور نکاح میں رکھ لے اور اگر وہ اس قسم کی حرکت سے باز نہیں آتی تو طلاق یاخلع دے کر الگ کردے۔

مسند البزار میں ہے:

"عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، رضي الله عنه: ‌إن ‌السماوات ‌السبع والأرضين السبع والجبال ليلعن الشيخ الزاني، وإن فروج الزناة لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(مسند بريدة، ج:10، ص:310، ط:مكتبة العلوم والحکم)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: «لا يزني الزاني حين يزني و هو مؤمن، و لا يشرب الخمر حين يشرب و هو مؤمن، و لا يسرق حين يسرق و هو مؤمن، و لا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها و هو مؤمن»."

(ج:3، ص:136، ط: دار طوق النجاة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: جاء رجل إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال: إن لي امرأة لا ترد يد لامس فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: " طلقها ": قال: إني أحبها. قال: " فأمسكها إذن» . رواه أبو داود، والنسائي وفي شرح السنة: معناه أنها مطاوعة لمن أرادها لا ترد يده، قال التوربشتي: هذا وإن كان اللفظ يقتضيه احتمالا فإن قول رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (فامسكها إذن) : يأباه، ومعاذ الله أن يأذن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في إمساك من لا تماسك لها عن الفاحشة، فضلا عن أن يأمر به، وإنما الوجه فيه أن الرجل شكا إليه خرقها وتهاونها بحفظ ما في البيت، والتسارع إلى بذل ذلك لمن أراده. قال القاضي: هذا التوجيه ضعيف ; لأن إمساك الفاجرة غير محرم، حتى لا يؤذن فيه سيما إذا كان الرجل مولعا بها فإنه ربما يخاف على نفسه أن لا يصطبر عنها لو طلقها، فيقع هو أيضا في الفجور، بل الواجب عليه أن يؤدبها ويجتهد في حفظها. في شرح السنة: فيه دليل على جواز نكاح الفاجرة وإن كان الاختيار غير ذلك، وهو قول أكثر أهل العلم."

(کتاب النکاح، باب اللعان، ج:5، ص:2171، ط:دار الفكر)

الدر مع الرد میں ہے:

"(قوله ‌لا ‌يجب ‌على ‌الزوج ‌تطليق ‌الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اهـ مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد يد لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها."

[کتاب الحظر والإباحه والإباحة، ج:6، ص:427، ط:سعيد.]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں