بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بدکاری کے بعد کیا توبہ قبول ہوجاتی ہے؟


سوال

مجھ سے تین دفعہ زنا ہوا ہے۔ کیا اللّٰہ تعالیٰ میری توبہ قبول کریں گے؟ میری راہنمائی فرما دیں  ۔  اور اس کا کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

 اللہ رب العزت کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"

( الزمر: ٥٣)

ترجمہ:" کہہ دو کہ : ” اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی  کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے"۔

اور صحیح بخاری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا     ارشاد     ہے:

"٤٨١٠ - حدثني ‌إبراهيم بن موسى، أخبرنا ‌هشام بن يوسف: أن ‌ابن جريج أخبرهم: قال ‌يعلى: إن ‌سعيد بن جبير أخبره، عن ‌ابن عباس - رضي الله عنهما -: «أن ناسا من أهل الشرك، كانوا قد قتلوا وأكثروا، وزنوا وأكثروا، فأتوا محمدا صلى الله عليه وسلم فقالوا: إن الذي تقول وتدعو إليه لحسن، لو تخبرنا أن لما عملنا كفارة، فنزل {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون} ونزل: {قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله}»."

( كتاب التفسير، سورة الزمر، قوله: {يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم}، ٦ / ١٢٥، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ: " حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں (یعنی اسلام) یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ   بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی « والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ‏»  " اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ"  اور یہ آیت نازل ہوئی  « قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله‏»" آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے "۔

لہذا صورت مسئولہ  میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے  مایوس  ہونا درست نہیں، اللہ سے مغفرت کی امید کے ساتھ اپنے عمل پر صدق دل سے توبہ و استغفار کرنا سائل پر لازم ہے،اور فوراً اس قسم کے گناہ کو ترک کردے، گناہ کے قریب بھی  نہ جائے،    توبہ کر نے سے پہلے اور  اس کے بعد اپنے گناہ  کا کسی سے  تذکرہ کرنا ہرگز جائز نہیں، احادیث میں سختی سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

" ٦٠٦٩ - حدثنا عبد العزيز بن عبد الله: حدثنا إبراهيم بن جعد، عن ابن أخي ابن شهاب، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه)".

( كتاب الادب، باب ستر المؤمن على نفسه، ٨ / ٢٠، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: " میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ    بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا تھا، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا"۔

مسئولہ صورت میں کوئی کفارہ نہیں، البتہ سائل کو چاہیئے کہ درج ذیل شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے    توبہ کرکے اس پر قائم رہنے کی کوشش کرتا رہے، اور توبہ کی قبولیت کی امید رکھے:

1۔ فوری طور پر گناہ چھوڑ دینا۔

2۔ اپنے کردہ گناہ پر شرمندگی کا اظہار۔

3۔ آئندہ نہ کرنے کا عزم۔

رياض الصالحين للنووي میں ہے:

"قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي، فلها ثلاثة شروط:

أحدها: أن يقلع عن المعصية.

والثاني: أن يندم على فعلها.

والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.

وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه, وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه, وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب, وبقي عليه الباقي".

( باب التوبة، ٣٣ - ٣٤، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں