بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدفعلی کا حکم


سوال

اگر بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے بڑے پیشاب کی جگہ پر کسی مرد نے اپنا نطفہ داخل کر دیا، تو اس پر حد جاری هو گی؟ شريعت ميں جو زنا ہے وہ ثابت هو گا؟

جواب

 واضح رہے  بدفعلی خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں سےسنگین ترین گناہ  لواطت (یعنی بدفعلی ہے خواہ وہ بیوی کے ساتھ ہو یا کسی اور سے ہو) ہے، جو انسان کو ہلاک اور برباد کرنے والا ہے، اس کی سخت ترین سزائیں دنیا اور آخرت میں بیان کی گئی ہے، خصوصًا جب غیر عورت کے ساتھ یہ فعلِ بد کیا جائے تو اس میں دوہرا گناہ ہے؛ لہذا ایسے عمل سے قطعی اجتناب واجب ہے جو دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بنے، اور اگر  اس طرح کے گناہ سرزد ہونے کے بعد  اس گناہ پر پشیمان ہوتے ہوئے اس سے سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی ہو، تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کو معاف کر دیں گے۔
نیز اگر کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے  جو من جملہ دیگر گناہوں کے ایک قوم پر عذاب کا سبب بنا تھا  تو شریعت میں اس کے لیے ’’حد‘‘ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ حاکمِ وقت (مقننہ) کی رائے پر مفوض کر دیا گیا کہ وہ جو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلاً اس کو قید کیا جا سکتا ہے، اور اگر بار بار کرتا ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے وغیرہ، ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔ اور یہ سزائیں صرف حکومت وقت دے سکتی ہے،کسی اور فرد کو جاری کرنے کا اختیار نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأته في دبرها".

(سنن أبي داود، ج:3، ص:490)

ترجمہ:  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی پچھلی شرم گاہ میں خواہش پوری کرتاہے۔

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: "إن الذي يأتي امرأته في دبرها لاينظر الله إليه".

(مسند أحمد، ج:7، ص:399، ط:دارالحديث)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف نظر نہیں فرمائیں گے جو  اپنی بیوی کی پچھلی شرم گاہ میں جماع کرتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: حرمتها أشدّ من الزنا؛ لحرمتها عقلًا وشرعًا وطبعًا".

(مطلب لاتكون اللواطة فى الجنة، ج4، ص:28، ط:ایچ ایم سعید)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ }

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزمًا جازمًا على أن لايعود إلى مثلها أبدًا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم ردّ الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، وركنها الأعظم الندم".

[سورة التحریم، ج:13، ص:784، ط:المکتبة التوفیقیة]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں