بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بد زبان اور نافرمان بیوی کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال

ہمارے یہاں  مدرسہ میں قاری صاحب بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں ،ان کی اہلیہ  کا رویہ بالکل درست نہیں ہے،ناشکر  اور نافرمان ہے،بد زبان اور تیز زبان ہے،ہر وقت چیختی رہتی ہے،کوئی خدمت نہیں کرتی،قاری صاحب اپناکا م خود کرتے ہیں،مثلاً کپڑا دھونا،قاری صاحب کے  بہن بھائیوں سے بھی بات چیت کرنا پسند نہیں کرتی اور مزید ان پر لعنت بھیجتی ہے،صفائی کا خیال نہیں کرتی اور بچوں کی تربیت میں توجہ نہیں ہے،ابھی چند دن قبل قاری صاحب  کے آمنے سامنے یہ کہاکہ تجھے شرم نہیں آتی؟میرے پر ہاتھ لگاتاہے،میرے ساتھ مستی کرتاہے اور میرے اوپر چڑھتاہے،آپ اندازہ لگائے کتنی خطر ناک بات ہے؟آج تک کسی بیوی نے نہیں کہا ہوگا،یہ باتیں سُن کر قاری صاحب کی کیفیت بہت زیادہ متاثر ہوگئی ہے،”الحیاء شعبة من الإیمان“ حیاء وشرم ایمان کا حصہ ہے،اس کے ساتھ زندگی کیسے بسر کریں،یہ  باتیں ان کے والد صاحب اور بہن بھائیوں سے ذکرکی ،انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا، جب سے موصوفہ نے یہ باتیں کہی ہے،تب سے قاری صاحب نے بات چیت بند کردی ہے،کمرہ اور بستر الگ کردیا،آج تقریباً ایک ماہ ہونے والا ہے،فی الحال کوئی فیصلہ کیے بغیر آپ سے رجوع کر رہے ہیں،مذکورہ مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے  شرعی طورپر قاری صاحب کے لیے کیا حکم ہے اور اہلیہ کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

 ازدواجی زندگی پرسُکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، صورت مسئولہ میں  اہلیہ پر لازم ہے  کہ  اپنے شوہر کی  اطاعت اور فرماں برداری کرے اور شوہر کی قدر ومنزلت پہچان کر اور اس کا لحاظ کرکے  اس کی  قدر کرے،طعن وتشنیع ،ملامت اور ہرقسم کے ناگزیر الفاظ سے اجتناب کرے اور شوہر کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کوتاہی نہ کرے، شوہر کے قدر ومنزلت کے بارے میں: ارشاد نبوی ہے۔ ” (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“ اور شوہر بھی اہلیہ کے حقوق کاخیال رکھے۔

 تاہم اگر   اہلیہ نافرمان بد زبان ہےتوشوہر کے لیے   قرآنِ کریم میں سورۂ نساء کی آیت  34 میں  اللہ تعالیٰ نے  اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے بھی ذکر فرمائے ہیں:

یعنی عورت اگر نافرمان ہے یا اس کی جانب سے نافرمانی کااندیشہ ہے، تو پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں  "فِي المْضَاجِعِ" کا لفظ ہے، اس کامطلب  فقہاءِ کرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو،کمرہ اور مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو  کمرےیا مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔

اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو  تیسرے درجہ میں  اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔

چناں چہ بخاری شریف کی روایت میں ہے:

’’  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛ کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے، پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری  کرے‘‘۔

 تاہم اگر اس کے باوجود بھی بیوی کا  ایسارویہ رہے،تو    خاندان کے بڑوں کو بٹھا کر معاملہ شکایات کو  ان کے سامنے رکھاجائے، جن کی بات کا اس پر اثر ہو اور اس سے اصلاح ہو سکے۔لہذا زیر نظر مسئلہ میں قاری صاحب کو چاہیے کہ وہ درج بالا شرعی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے بیوی کی اصلاح کے لیے کوشش کرے،تاہم اگر اس کے باوجود بھی بیوی اگر راہ راست پر نہ آئے اور میاں بیوی دونوں کے لیے ایک دوسرے کے شرعی حقوق پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتو آخری درجہ میں شوہر کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کی گنجائش ہے اور طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو اس کی پاکی کے ایام میں صرف ایک طلاق دی جائے ،اس کے  ایک طلاق کے بعد اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو بعد از عدت نکاح ختم ہو جائے گا۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي."

( كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج: 2، ص: 792، ط؛ المكتب الإسلامي) 

ترجمہ:” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”(بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"{واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن ‌واهجروهن ‌في ‌المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] يدل على أن عليها طاعته في نفسها وترك النشوز عليه.

وقد روي في حق الزوج على المرأة وحق المرأة عليه عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار بعضها مواطئ لما دل عليه الكتاب وبعضها زائد عليه، من ذلك ما حدثنا محمد بن بكر البصري قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي وغيره قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فقال: "اتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه فإن فعلن فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف". وروى ليث عن عبد الملك عن عطاء عن ابن عمر قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على الزوجة؟ فذكر فيها أشياء: "لا تصدق بشيء من بيته إلا بإذنه فإن فعلت كان له الأجر وعليها الوزر" فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على زوجته؟ قال: "لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم يوما إلا بإذنه". وروى مسعر عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير النساء امرأة إذا نظرت إليها سرتك وإذا أمرتها أطاعتك وإذا غبت عنها حفظتك في مالك ونفسها."

(ج: 1، ص: 454، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"هو خطاب للأزواج لما في نسق الآية من الدلالة عليه، وهو قوله: {واهجروهن في المضاجع} ، وقوله: {وإن خفتم شقاق بينهما} الأولى أن يكون خطابا للحاكم الناظر بين الخصمين والمانع من التعدي والظلم وذلك; لأنه قد بين أمر الزوج وأمره بوعظها وتخويفها بالله ثم بهجرانها في المضجع إن لم تنزجر ثم بضربها إن أقامت على نشوزها، ثم لم يجعل بعد الضرب للزوج إلا المحاكمة إلى من ينصف المظلوم منهما من الظالم ويتوجه حكمه عليهما."

(ج: 2، ص: 238، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت ‌فنوعان ‌حسن ‌وأحسن ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق ‌امرأته ‌واحدة ‌رجعية ‌في ‌طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها."

(كتاب الطلاق،الباب الأول في.....،الطلاق السني، ج: 1، ص: 348، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں