بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بد نظری گناہ کبیرہ میں شامل ہے یا نہیں؟


سوال

کیابدنظری گناہ کبیرہ میں سے ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب

مطلق گناه نا م ہے  "ہر ايسے کام کا جو اللہ تعالٰی کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو " ۔ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ کہاجاتا ہے در  حقیقت  وہ بھی چھوٹا نہیں ہے ،اللہ تعالی  کی نافرمانی اور اس کی مرضی کی مخالفت ہر حالت میں نہایت سخت و شدید جرم ہے اسی حیثیت سے امام الحرمین اور بہت سے علماء ِ امت نے فرمایا ہےکہ ہر نافرمانی اور اس کی مرضی کی مخالفت کبیرہ  ہی ہے۔۔  اسی معنی میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ "كل ما نہی عنہ  فہو كبيرة "(کہ ہر وہ کام جس کے کرنے سے روکا گیا ہو وہ کبیرہ ہے)

(معارف القرآن(مفتی محمد شفیعؒ) ، ج : 2  ،  ص : 384 ، ط : معارف القرآن کراچی)

مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے" بیان القرآن" میں لکھا ہے کہ جامع تر قول کے مطابق  گناہ کبیرہ کی تعریف  یہ ہے  کہ جس گناہ پر کوئی وعید ہو یا حد مقررہو یا ا س  پر لعنت آئی ہو یا اس میں ایسا مفسدہ ہو جیسا کہ اس گناہ میں ہے جس پر وعید یا لعنت آئی ہو خواہ برابرہو یا زیادہ ،یا وہ گناہ براہ تعاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے،   اس کا مقابل صغیرہ ہے۔  

(بیان القرآن ،ج :1 ،ص : 356  ،ط : مکتبہ رحمانیہ)

مرد کا نامحرم عورت کو جی  بھر کر  دیکھنا اسی طرح بے ریش لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا  اور نامحرم عورت کانا محرم مرد کو جی بھر کر دیکھنا یہ بدنظری ہے،بغیر قصد کے نامحرم عورت پر نظرکا  پڑجانا  یا بے ریش لڑکے  کو بغیر شہوت کے دیکھنا  یہ  بد نظری نہیں ہے کیونکہ نظر فجاءۃ (بلاقصد اجنبیہ عورت پر نظر کاپڑ جانا)اس کو معا ف قرار دیا ہے۔جو بد نظری شرعا حرام ہے اس کی حرمت کو   قرآن و حدیث دونوں نے بیان کی ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سورۃ النور میں غض ِ بصر کا حکم دیا ہے ،احکام القرآن للجصاص ،تفسیر قرطبی اور دیگر مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ جمیع محرمات اور ہر اس چیز سے جس سےفتنہ میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہو اس سے نگاہوں کو پست کرنا واجب ہے، مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نےاسی  آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ فتنہ شہوت کاسب سے پہلاسبب اور مقدمہ نگاہ ڈالناہ اور دیکھنا ہے اور آخری نتیجہ زنا ہے  (اس آیت میں )ان دونوں کو صراحۃً     ذکر کرکے حرام کردیاگیا۔ 

(معارف القرآن ، ج : 5  ،ص : 399 ،ط : مکتبہ معارف القرآن)

حدیث شریف میں بھی بدنظری کو حرام قرار دیاہے ،   حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لاتتبع النظرۃ النظرۃ فان لك الاولی وليست لك الآخرة "كہ نظر پڑ جانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں نظر پڑجائے تو پھر اس کے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو)  کیوں کہ تمہارے لیے پہلی نظر تو جائز ہے ( جب کہ اس میں قصد و ارادہ کو دخل نہ ہو) مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ۔شرح المشكاة للطيبی  ميں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ پہلی نظر پڑ جانے  کے بعد دیکھنے والا اگر اپنی نظر کو تھامے رکھے دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھے تو اس کو اس عمل پر اجر ملے گا ۔بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل  کی ہے  کہ  اللہ تعالی نے   هر ابن آدم پرزنا كا حصہ لکھ دیا ہے لامحالہ وہ اس کو ضرور پائے  گا،پس آنکھ کا زنا دیکھنا (بد نظری کرنا )ہے اور زبان کا زنابولنا  ہے۔علامہ عينی ؒ نے عمدة القاری میں "زناالعین "(آنکھوں  کے زنا) کی تشریح یہ کی ہے کہ اس سےمراد وہ دیکھنا ہے جو پہلی نظر کے بعد بھی نظر جماکےرکھے اور وہ دیکھنامراد ہے جو بطورِ شہوت ہو ۔" اسی طرح مشكاة المصابيح کی ایک روایت ہے  جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہےکہ  (بالقصد اور اختیار کےساتھ )دیکھنے والے پر اوروہ جس کی طرف دیکھا جارہا ہے(بغیرکسی عذر اور مجبوری کے)دونوں پر اللہ کی لعنت ہو تی ہے۔

ان سب عبارات  (کہ نظر جمانا وبال ہے  ،اس جیسے پر اللہ کی لعنت ہو،یہ آنکھوں کا زنا  ہے)سے معلوم ہوتا ہے کہ بد نظری کرنا حرام ہے ۔فقہاءکرام نے بھی بدنظری کو حرام لکھا ہے  ،علامہ ابن عابدین ؒلکھتے ہیں کہ چند ضرورت والی صورتوں کےعلاوہ کسی بھی صورت میں آزا د   اجنبیہ عورت کو دیکھنا حرام ہے اور امردکو شہوت کی نظر سےدیکھنا یا شہوت پیداہونے کا شک ہو تو اس کی طرف دیکھناحرام ہے ،البتہ بغیر شہوت کےامرد کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح ابن حجر مکی ؒ نے اپنی کتاب"الزواجرعن اقتراف الکبائر"میں اجنبیہ خاتون کو شہوت کی نگاہ سےدیکھنےکو کبائر میں شمار کیا ہے ،او ربغیر شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کو صغائر میں شمار کیاہے،(شیخین کا یہ قول کہ مقدمات زنا کبائر نہیں ہیں اسی پر محمول ہے۔)

خلاصہ :  نامحرم عورت کو جی بھر کر دیکھنا،بےریش لڑکے کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنایہ بدنظری ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے،  اسی طرح بد نظری پر اصرار کرنایہ بھی گناہ کبیرہ ہے،کیونکہ ہر وہ گناہ جس کو بے باکی اور بے پرواہی کے ساتھ کیا جائے اور اس پر مداومت  کی جائے وہ کبیرہ ہوجاتاہے ،حدیث مبارکہ میں اس قسم کی  بد نظری کرنےوالے پر  لعنت آئی ہے، یہ بد نظری کے  کبیرہ ہونے کی علامت  ہے ،اسی طرح بالقصد اور اختیار سے بد نظری کرنے  والےپر   بھی حدیث مبارک میں لعنت آئی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بد نظری گناہ کبیرہ ہے ،جو اس کے مقابل میں ہے، وہ صغیرہ ہے۔

قرآن کریم کی سورۂ نور آیت 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

" قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ "

بخاری شریف میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق۔۔" 

(باب : زنا الجوارح دون الفرج ، ج :  5 ، ص : 2304 ، ط : دار ابن كثير،دار اليمامة دمشق)

عمدۃ القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

"فقوله: (‌زنا ‌العين) يعني: فيما زاد على النظرة الأولى التي لا يملكها، فالمراد النظرة على سبيل اللذة والشهوة،."

(باب زنا الجوارح دون الفرج ، ج : 22 ، ص : 240 ، ط : دارالفكر بيروت)

شرح مشکاۃللطیبی میں ہے:

«قوله: ((عن نظر الفجاءة)) ((مح)): وهي أن يقع النظر إلي الأجنبية من غير قصد بغتة فهو معفو، لكن يجب عليه أن يصرف بصره في الحال، وإن استدام النظر يأثم، 

(باب النظر الی المخطوبة وبيان العورات ، رقم : 3104 ، ج : 7 ، ص :2270 ، ط : مكتبة نزار مصطفی الباز)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن الحسن) أي البصري (مرسلا قال: بلغني) أي عن الصحابة (أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌لعن ‌الله ‌الناظر) أي بالقصد والاختيار (والمنظور إليه) أي من غير عذر واضطرار، وحذف المفعول ليعم جميع ما لا يجوز النظر إليه تفخيما لشأنه" 

(كتاب النكاح ، باب النظر ، رقم : 3125 ، ج :5 ، ص : 2059 ، ط : دارالفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يجوز النظر إليه بشهوة كوجه أمرد) فإنه يحرم النظر إلى وجهها ووجه الأمرد إذا شك في الشهوة، أما بدونها فيباح ولو جميلا (الدر)

«(قوله ولا يجوز النظر إليه بشهوة) أي إلا لحاجة كقاض أو شاهد بحكم۔۔۔۔الخ."

(مطلب في ستر العورة ، ج : 1 ، ص : 407 ، ط : دارالفكر بيروت)

الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"تنبيه: عد هذه الثلاثة من الكبائر هو ما جرى عليه غير واحد وكأنهم أخذوه من الحديث الأول وما بعده، لكن الذي جرى عليه الشيخان وغيرهما أن مقدمات الزنا ليست كبائر، ويمكن الجمع بحمل هذا على ما إذا انتفت الشهوة، وخوف الفتنة، والأول على ما إذا وجدتا فمن ثم قيدت بهما الأول حتى يكون له نوع اتجاه، وأما إطلاق الكبيرة ولو مع انتفاء ذينك فبعيد جدا."

(كتاب النكاح ، الكبيرة الخامسة والاربعون بعد المأتين نظرالاجنبية بشهوة ، ج :2 ، ص : 5 ، ط : دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں