بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدمزاج بیوی کی اصلاح کیسے ہو؟


سوال

میری شادی کو 21 سال ہوئے ہیں، میرے چار بچے ہیں۔ بیوی بہت زیادہ تیز مزاج کی ہے۔ گھر میں اکثر جھگڑا کرتی رہتی ہے۔ میری ماں پر ہاتھ بھی اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ میری بات مانتی نہیں ہے۔ طلاق دینے سے ڈر لگتا ہے۔

جواب

اولاً تو آپ گھر بسانے اور ساتھ نباہنے کی حتی الامکان کوشش کیجیے، شوہر کے حقوق اور ساس کے حقوق سے انہیں آگاہ کیجیے، تمام جائز امور میں بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت لازم ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ  عورت کے ذمہ ساس کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طور پر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے، (بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)   یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔

(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

جامعہ کے رئیس دار الافتاء حضرت مولانا مفتی محمدعبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ایک فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اگر بیوی فارغ ہو تو سسر اور ساس کی جائز خدمت کرنا اس پر لازم ہے، انسانی ہم دردی کے علاوہ اس وجہ سے بھی کہ وہ شوہر کے والدین ہیں، شوہر کے والدین کی خدمت کرنا درحقیقت شوہر کی خدمت کرنا ہے، البتہ جب وہ فارغ نہ ہو یا کوئی ایسی خدمت جو انجام دینا اس کے لیے درست نہیں، وہ بہو کے ذمہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘

کتبہ: محمد عبدالسلام، 4/2/1412

لہذا بیوی کو ان باتوں سے آگاہ کریں ممکن ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے باز آجائے، اور معاملہ جدائی تک نہ پہنچے، اس لیے کہ طلاق دینا شرعاً اور معاشرۃً پسندیدہ نہیں ہے، اور اگر آپ سے اصلاح ممکن نہ ہو بلکہ خاندان کے بڑوں کو بٹھاکر بات بن سکتی ہو تو ایسا کرنے سے بھی دریغ نہ کیجیے، اور اگر اصلاح اور بہتری کی کوئی صورت ہی ممکن نہ ہو اور طلاق دینا ہی ضروری ہو باہمی نباہ نہ ہوسکتا ہو تو  بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں ایک طلاق دےدیں جس میں آپ بیوی کے قریب نہ گئے ہوں، اس کے بعد جیسے ہی اس کی تین ماہواریاں گزریں گی وہ، آپ سے بائن ہو جائے گی، اور عورت کے لیے عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرنا جائز ہوگا۔ تاہم  آپ  دوسری شادی طلاق دینے سے پہلے اور طلاق دینے کے فوراً بعد بھی کرسکتے ہیں، عدت عورت پر لازم ہوتی ہے نہ کہ مرد پر۔

بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً انتہائی ناپسندیدہ ہے، اور تین طلاق کے بعد رجوع  اور تجدیدِ نکاح کی گنجائش بھی نہیں رہتی؛ اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں