بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بد مزاج شخص کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آنا


سوال

 اگرگھر میں  کسی کا مزاج اور رویہ بالکل مختلف ہو، گھر میں نہ کسی سے ملتا ہےاورنہ بات کرتاہے، اگر ان سے بات چیت کی جائے تو وہ ٹھیک سے جواب نہ دے یہاں تک کے سلام بھی کرلیاجائے تو سلام کا جواب نہ دے،نہ کبھی میں نے ان کے ساتھ غلط کرلیاہےاورنہ کبھی ان کے لیے کچھ غلط کرنے کا ارادہ کیا ہے ، میں نے کئی سال کوشش کی کہ کسی طرح ہمارے مزاج و ذہن مل جائے، ہر طرح ان کے ساتھ اچھا کرنے کی پوری پوری کوشش کی، لیکن کئی سالوں کی کوششوں کے بعدبھی میں ان کے ذہن کو نہیں سمجھ سکی،ان کا رویہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت ذہنی دباؤ میں آگئی ہوں،اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے  طبیعت میں کافی خرابی پیدہوگئی ہے،ان سب معاملات کو دیکھتے ہوئے میرے شوہر نے   مجھے ان سے بالکل بات چیت کرنے سے منع کردیا ہے،میں ان کے غم و خوشی میں برابر کی شریک ہوتی ہوں،بس بات چیت بالکل نہیں کرتی ہوں، برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ  مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شاید میرے اندر حسساسیت اور سوچنے کی عادت زیادہ ہے جو میں ان کے رویہ کی وجہ سے پریشان ہوجاتی ہوں،کیا ان کے ساتھ بات چیت بالکل ترک کرنے سے گناہ ہو گا؟

جواب

واضح رہےکہ قطع تعلقی کرنے والے کے لیے احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، مسلمان سےقطع تعلق ہونےسےبچنےکی کوشش کرنی چاہیے،لہٰذاحدیث شریف میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے بایں طور کہ ان دونوں کی آپس میں ملاقات ہو تو ہر کوئی دوسرے سے منہ موڑ لے، نہ تو اس سے سلام کرے اور نہ ہی اس سے بات کرے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائلہ کااپنے رشتہ دار سے گھر کے اندربالکل قطع تعلقی اختیار کرنا، سلام کلام بندکرنا شرعاًدرست نہیں ، بلکہ سائلہ کو اپنے رشتہ دار سے حسن اخلاق کامظاہرہ کرتے ہوئے پیش آنا چاہے،اور رشتہ دار کا اپنا رویہ بدسےباز نہ آنے کی صورت میں سائلہ کو پریشان نہیں ہونا  چاہیےاور نہ ذہنی دباؤمیں آناچاہیے،اگر پھر بھی مذکورہ معاملات میں کوئی اچھی صورت کارآمد نہ ہو تو سائلہ اپنےمذکورہ رشتہ دار کے ساتھ میل جول کو کم رکھ کران کے ساتھ تعلقات کو محدود کرسکتی ہے کہ اگر کہیں آمنا سامنا ہوجائے، تو سلام دعا پراکتفاءکیا جائے، ایسی صورت میں سائلہ گناہ گارہ نہ ہوگی اورنہ آخرت میں مؤخذہ ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين... ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى۔"

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،الفصل الأول، ج:8، ص:3147، ط: دار الفكر بيروت)

صحيح بخاری میں ہے:

" عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال إن جبير بن مطعم، أخبره: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا يدخل الجنة قاطع."

(كتاب الآداب، باب إثم القاطع، ج:5، ص:2231، ط: دار ابن كثير دمشق)

مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولايجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ: قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يومًا. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق".

(کتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الأول،ج:8، ص:3146، ط: دارالفکر)

       عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجرهحتى ينزععن فعله وعقده ، فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلةً حتى صحّت توبتهم عند الله، فأعلمه فعاد إليهم."

(أبواب البر والصلة، ج:8، ص:116، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100914

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں