ایک کام کا پتا ہو کہ گناہ ہے، پھر یہ سوچ کر کر لے کہ بعد میں معافی مانگ لوں گا رب سے وہ معاف کر دے گا، یہ کیسا ہے؟
اس نیت سے گناہ کرنا کہ بعد میں توبہ کرلوں گا انتہائی نادانی کی بات ہے اور ایسا کرنے والا سخت دھوکے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے غفور و رحیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی گناہ کا کام نہ ہونے پائے، پھر بھی اگر کبھی غلطی یا غفلت کی بنا پر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجائے فورًا اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کے پکے عزم کے ساتھ اس گناہ سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے اس گناہ کو معاف کردیں گے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس نیت سے گناہ کرتا رہے کہ بعد میں توبہ کرلوں گا، بلکہ توبہ کی امید پر گناہ کروانا شیطان کا دھوکا ہے، موت کا کسی کو پتا نہیں، کیا معلوم گناہ کرتے ہوئے ہی موت آجائے، اس لیے ہر وقت گناہ سے بچنے کی فکر کرنا چاہیے، اس سے حسنِ خاتمہ نصیب ہونے کی قوی امید رہتی ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ "
ترجمہ : اے ایمان والو الله تعالیٰ سے ڈرا کرو جیسا ڈرنے کا حق ہے، اور بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔ (بیان القرآن، آلِ عمران: 102)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200432
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن