بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بد کردار شوہر کا نکاح عدالت سے فسخ کروانا/ جبراً خلع کا دستخط کروانا


سوال

 جامعہ کے اسی ویب سائٹ پر دو فتوے  موجود ہیں،جس کی ذرا وضاحت مطلوب ہے: فتوی نمبر : 144206200195 میں ذکر ہے کہ : نیز ایسے عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو۔ پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔ نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، سو اگر یہ شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

جب کہ فتوی نمبر :144304100510 میں ایک عورت کے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ میری بہن کا شوہر بدکردار ہے نامحرم عورتوں کے ساتھ تعلقات ہے وغیرہ ذالک ، جس کی بنیاد پر میری بہن جدائی چاہتی ہے اور وہ طلاق نہیں دے رہا تو کیا اس صورت میں عدالتی خلع کا فیصلہ نافذ ہوگا ؟ جواب میں لکھا گیا کی شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ شوہر کا بدکردار ہونا یا شوہر کا اپنی بیگم کو گالی گلوچ دینا اور بلاوجہ ٹارچر کرنا بھی تو ظلم ہے ، اگر یہ بھی ظلم ہے تو اس صورت میں عدالتی خلع کو نافذ کیوں نہیں کہا جاسکتا ؟ اور اگر کوئی خاتون دو گواہوں کے ذریعے ثابت کردے کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کر رہا ہے اور باوجود عدالتی 3 نوٹس کے وہ عدالت میں حاضر نہیں ہو رہا تو اس صورت میں قاضی کا تنسیخ نکاح کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا صحیح ہوگا کہ نہیں ؟

نیز ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر جبرا تنسیخ نکاح والے سرٹیفکیٹ پر شوہر سے دستخط لئے جائے تو یہ خلع درست ہوگا کہ نہیں جب کہ ہم نے  فقہ میں پڑھا ہے کہ طلاق نکاح عتاق مذاق ہو کہ جبرًا بہر صورت ہوجاتا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں دوسرے سوال یعنی فتویٰ نمبر 144304100510 میں صرف یہ ذکر کیا گیا ہے کہ شوہر اور اس کا والد بد کردار ہیں، ان کے لڑکی پر کسی ظلم کا ذکر نہیں کیا گیا، جبکہ عدالتی تنسیخ نکاح کی اجازت فقہاء نے صرف اس صورت میں دی ہے جب شوہر عورت کے حقوق ادا کرنے پر یا تو قادر نہ ہو(جیسے مجنون، عنین وغیرہ) یا جان بوجھ کر ادا نہ کرتا ہو(مثلاً نان نفقہ نہ دیتا ہو یا شدید ظلم کرتا ہو)، جس کی وجہ سے شوہر کے ساتھ گزارا کسی صورت ممکن نہ ہو، جبکہ بد کردار  آدمی اگرچہ خود سخت گناہ میں مبتلا ہے۔ لیکن اپنی بیوی کے حقوق اگر ادا کر رہا ہو، اور اس کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہو، یااس شوہر  کی اصلاح  ممکن ہو، یا اس سے طلاق یا خلع لیا جا سکتا ہو، تو  تنسیخ نکاح کا حکم نہیں دیا جائے گا،جبکہ مذکورہ استفتاءمیں شوہر کی طرف سے کسی اور ظلم یا حقوق کی عدم ادائیگی کا ذکر  بھی نہیں، لہٰذا وہاں عدالتی تنسیخ نکاح کا مشورہ نہیں دیا گیا۔

آپ کے دوسرے سوال میں تنسیخ نکاح میں شوہر کے دستخط جبراً لینے سے کیا مراد ہے؟ اس لیے کہ تنسیخ نکاح کا فیصلہ تو عدالت کی طرف سے یکطرفہ ہوتا ہے، اور ہوتا ہی اس وقت ہے جب شوہر (طلاق یا )خلع(نہ دے رہا ہویا خلع ) کے کاغذات پر دستخط نہیں کر رہا ہو، اگر شوہر خلع کے کاغذات پر دستخط کردے تو وہ خلع معتبر ہوگی،الا یہ کہ واقعۃ شوہر سے جبراًخلع کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے، اور  جبرسے مراد "اکراہ شرعی " ہے ، یعنی خلع نامے پر دستخط کرانے والے نے جان سے مارنے  کی دھمکی دی ہو  یا ایسا تشدد کرے کہ جس سے عضوتلف ہو  جانے  کا اندیشہ ہو ،تو اگر ایسی حالت میں مجبور  آدمی خلع نامے پر دستخط کردے ،لیکن زبان سے طلاق/خلع نہ دے تو یہ خلع واقع نہیں  ہوتا۔ باقی رہا یہ اشکال کہ طلاق  اور خلع مزاح میں بھی واقع ہوجاتے ہیں، تو اس سے مراد زبانی طلاق دینا ہے، محض طلاق بالکتابۃ نہیں۔

الحیلۃ الناجزۃ میں ہے:

’’سخت مجبوری کی حالت میں ۔۔۔۔۔۔زوجۂ متعنت کو تفریق کاحق مل سکتا ہے، اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہوسکے، یعنی نہ کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور ن خود عورت حفظ ِ ٓبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔

اور دوسری صورت مجبوری کی یہ ہے کہ اگرچہ بسہولت  یا بدقت خرچ کا انتظام ہوسکتاہے، لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا قوی اندیشہ ہو۔‘‘

(ص:۱۰۱، ط:امارتِ شرعیہ ہند، دہلی) 

 فتاوی شامی میں ہے:

"الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا۔۔۔۔ وفيه بعد اسطر(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال."

(كتاب الاكراه،١٢٨/٦،ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وشرطه قدرة المكره على تحقيق ما هدد به سلطانا كان أو لصا أو خوف المكره وقوع ما هدد به) يعني شرط الإكراه الذي هو فعل كما تقدم؛ لأن الإكراه اسم لفعل يفعله الإنسان بغيره فينتفي به رضاه أو يفسد به اختياره مع بقاء الأهلية ولا يتحقق ذلك إلا من القادر عند خوف المكره؛ لأنه يصير به ملجئا وبدون ذلك لا يصير ملجئا وما روي عن الإمام أن الإكراه لا يتحقق إلا من السلطان فذلك محمول على ما شهد في زمانه من أن القدرة والمنعة منحصرة في السلطان وفي زمانهما كان لكل مفسد له قوة ومنعة لفساد الزمان فأفتيا على ما شهدا وبه يفتى؛ لأنه ليس فيه اختلاف يظهر في حق الحجة وفي المحيط وصفة المكره وهو أن يغلب على ظنه أنه يوقع ذلك به لو لم يفعل، ولو شك أنه لا يفعل ما توعد به لم يكن مكرها؛ لأن غلبة الظن معتبرة عند فقد الأدلة اهـ."

(کتاب الاکراہ،شرط الاکراہ،ج: 8، ص: 80،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية."

(کتاب الطلاق،مطلب في الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق،٣٣٦/٣،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں