بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بد کردار بیوی کو طلاق دینے سے شوہرگناہ گار نہیں ہوگا


سوال

میرے بیٹے کی شادی کوڈھائی سال ہوگئے ہیں اوراس کی ایک بچی بھی ہے کچھ دن پہلے پتہ چلاکہ اس کی بیوی کےناجائز تعلقات اس کے چچاکے بیٹے کے ساتھ ہیں جوکہ وہ بھی شادی شدہ ہے کیونکہ لڑکی کے والدکاانتقال ہوگیاہے، اس لیے اس کی ماں اوربھائیوں سےبات ہوئی انہوں نےمعافی تلافی اورمنت سماجت کی تووہ بیوی کوگھرلے آیاچندشرائط کےساتھ۔ شرائط کے تحت لڑکی ماں کےگھرنہیں جائے گی کیونکہ ان کی ماں کےگھرمیں چچاکے لوگوں کاآناجاناہے اوران لوگوں نے چچاسے تعلق ختم کرنے انکارکیاہے ۔ موبائل کے استعمال میں پابندی لگائی ، مگرکچھ دن بعدبیٹےکی بیوی نے ما ں کے گھرجانےپر اصرارکیا، انکارپروہ اپنی مرضی سے ماں کےگھرچلی گئی اور وہ اپنے ساتھ اپنازیوراوررقم وغیرہ اپنے ساتھ لے گئی ۔ مہر بھی وصول کرلیا، یہ باتیں اس نے لکھ کردے دی۔ بیٹے کواس کے بھائی نے کہابچی تمہاری ہےاس کولےجاؤ اوراپنے گھرسے نکل جانے کاکہایعنی میرے بیٹے کوکہا کہ اپنی بچی کولےجاؤاورگھرسے نکل جاؤ۔

ان تمام صورتحال کی بنا  پرمیرابیٹااپنی بیوی کوطلاق دے سکتاہے ؟

نوٹ : تمام باتوں کاثبوت موبائل میں محفوظ ہے، اورلڑکی نے اعتراف جرم بھی کیاہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میںجہاں تک ممکن ہو نباہ کی کوشش کریں،  لیکن تمام تر کوششوں اور نصائح کے باوجودلڑکیباز نہیں آتی توآپ کابیٹاطلاق دینا چاہے تودے سکتاہے ،اور وہ گناہ گار نہیں ہو گا، طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے ایک طلاق دے کر اسے چھوڑ دیا جائےاور  رجوع نہ کیا جائے تو عدت ختم ہوتے ہی وہ آپ کےبیٹےکے نکاح سے بالکل علیحدہ ہو جائے گی۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإيقاعه مباح) عند العامة لإطلاق الآيات أكمل (وقيل) قائله الكمال (الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة) كريبة وكبر والمذهب الأول كما في البحر،…….ومفاده أن لا إثم بمعاشرة من لا تصلي ويجب لو فات الإمساك بالمعروف ويحرم لو بدعيا.ومن محاسنه التخلص به من المكاره.

وفی الرد:(قوله ومن محاسنه التخلص به من المكاره) أي الدينية والدنيوية بحر۔"

(الدرالمختارمع ردالمحتار،كتاب الطلاق۳/۲۲۷ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں