بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بد کاری اور اس سے توبہ کے حوالے سے چند وضاحتیں


سوال

 اگر کسی   نے زنا کر لیا ہو اور پھر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی؟اور جس شخص کے ساتھ زنا کیا ہو اگر اس سے شادی کر لی جائے تو گناہ کا کفارہ ممکن ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ سب   گناہ توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو،  چناں چہ اگر زندگی میں  کفر اور شرک سے بھی توبہ تائب ہوکر اسلام قبول کرلیا تو اس کا گناہ بھی معاف ہوجائے گا، البتہ اگر کفر اور شرک کی حالت میں مرگیا ہو تو  پھر اس کی بخشش نہیں ہوگی۔

سچی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے پشیمانی ہو، اس گناہ کو فوراً ترک کردیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، لہٰذا جس شخص سے زنا کا گناہ سرزد ہوگیا ہو ،اگر  وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے،اور جس سے زنا کیا ہو،اگر زانی اور مزنیہ آپس میں کسی محرم رشتے سے منسلک نہیں ہیں اور عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو دونوں آپس میں نکاح کر سکتے ہیں،بہتر بھی یہی ہے کہ یہ دونوں آپس میں ہی نکاح کریں ۔الغرض گناہوں کا کفارہ سچی توبہ سے ہوتا ہے، محض زانیہ سے شادی کرنے سے نہیں۔

قرآنِ کریم  میں اللہ تعالیٰ بواسطہ  نبی کریم صلی اللہ  علیہ  و  سلم  اپنے  گناہ  گار  بندوں  سے  ارشاد  فرماتے  ہیں:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَاتَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ  إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ."[الزمر:53]

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘  (بیان القرآن)

اسی طرح   قرآنِ  کریم میں دوسری جگہ   ارشاد  باری تعالیٰ ہے:

"اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ."[البقرة:222]

ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت  رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں  پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

قرآن مجید  میں اللہ تعالی کا ارشاد  ہے:

"اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ  ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ  ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭلَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ"(النور:26)

ترجمہ: "(اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں یہ اس بات سے پاک ہیں جو یہ (منافق) بکتے پھرتے ہیں ان (حضرات) کے لیے (آخرت میں) مغفرت اور عزت کی روزی (یعنی جنت) ہے۔"(بیان القران)

صحیح مسلم  ميں هے :

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلّم: «و الذي نفسي بيده ‌لو ‌لم ‌تذنبوا لذهب الله بكم، و لجاء بقوم يذنبون، فيستغفرون الله فيغفر لهم."

(باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبة، ص:2106، ج:4، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي و شركاه، القاهرة)

"ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے  قبضہ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو، البتہ اللہ تعالیٰ تم کو فنا کردے اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے جو  گناہ کریں، پھر اس سے بخشش مانگیں اور اللہ تعالیٰ بخشے ان کو۔"

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: التائب من الذنب كمن لا ذنب له."

(سنن ابن ماجه، باب ذكر التوبة،  ج:5، ص:320، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :’’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘

وفیہ ایضاً:

"كلّ بني آدم خطاء، و خير الخطائين التوّابون."

(أخرجه ابن ماجه في سننه في باب ذكر التوبة ، ج:5، ص: 321،  برقم  (4251)، ط.  دار الرسالة العالمية)

’’ہر بنی آدم  (انسان)  بہت زیادہ  خطا کار  ہے، اور  (لیکن  اللہ  تعالیٰ  کے  نزدیک)  بہترین  خطاکار  وہ  ہیں جو کثرت  سے توبہ کرنے  والے  ہوں۔‘‘

"أحكام القرآن للجصاص"میں ہے:

"وقد اختلف السلف في تأويل الآية وحكمها، فحدثنا جعفر بن محمد الواسطي قال: حدثنا جعفر بن محمد بن اليمان قال: حدثنا أبو عبيد قال: حدثنا يحيى بن سعيد ويزيد بن هارون عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن سعيد بن المسيب في قوله تعالى:{‌الزاني ‌لا ‌ينكح ‌إلا ‌زانية ‌أو ‌مشركة} : قدنسختها الآية التي بعدها:{وأنكحوا الأيامى منكم}."

(من سورة النور،‌‌باب تزويج الزانية،ج3،ص345،ط:دار الكتب العلمية)

"شرح صحيح البخاری لابن بطال" میں ہے:

"ورخص أكثر العلماء فى تزويج المرأة التى زنى بها، وشبه ابن عباس ذلك برجل يسرق ثمر النخلة فيأكلها ثم يشتريها، وكره ذلك ابن مسعود، وعائشة، والبراء، وقالوا: لا يزالان زانيين ما اجتمعا." 

(كتاب الرضاع،باب ما يحل من النساء وما يحرم،ج:7،ص:210،ط:مكتبة الرشد - السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102940

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں