بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بدفعلی کے الزام پر سیاسی ذمہ داروں کے گھر سے نکلنے پر مجبور کرنے کا حکم


سوال

1)۔۔۔بیٹے نے والد پرالزام لگایا ہے کہ میرے والد نے میرے ساتھ بد فعلی کی ہے، یہ  بات  چند سیاسی ذمہ داروں کے سامنے کر دی گئی، اب وہ کہتے ہیں کہ گھر خالی کر دو ،محلے پر عذاب آجائے گا، گھر میں سترہ افراد ہیں، والد کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں  نکالنا شرعاً درست ہو تو ہمیں کچھ وقت کے لیے مہلت مل سکتی ہے؟ اور شرعاً ان ذمہ داروں کا ہمیں تنگ کرنا اور نکلنے پر مجبور کرنا کیسا ہے؟ حالاں کہ نہ تو کہیں عدالت میں پیشی ہوئی ہے، نہ کوئی پنچائت ہوئی ہے جس میں لڑکے نے کوئی گواہ پیش کیے ہوں، بلکہ کوئی گواہ بننے کے لیے تیار بھی نہیں ہے، اور والد جرم کا انکار بھی کرتا ہے۔

ان ذمہ داروں نے پولیس والوں کو بتایا جس کی وجہ سے وہ بھی گھر کے باہر جمع ہوجاتے ہیں، ان ذمہ داروں کا پولیس کو اطلاع دینا کیسا ہے؟

2)۔۔۔نیز یہ بھی واضح فرمادیں کہ کیا ایسے شخص پر توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے؟ کسی نے بتایا ہے کہ ایسے شخص پر توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کے گناہ پر اسے سزا دینا،یا کوئی شرعی حد جاری کرنا مسلمان حاکم، یا شرعی قاضی کا حق ہے، لیکن وہ بھی تب جب وہ گناہ باقاعدہ شرعی ثبوت کے ساتھ ثابت ہوجائے، عام مسلمانوں کو یا معاشرے کے بڑوں کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر تحقیق کے صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کو دھمکائیں، سزا دیں یا گھر سے نکالیں۔

1)۔۔۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعی درست ہے تو اس صورت میں  مذکورہ شخص پر جب شرعی ثبوت کے ساتھ جرم ثابت نہیں ہوا، اور نہ ہی اس نے اقرار یا اعتراف کیا ہے تو چند سیاسی ذمہ داروں کا محض بیٹے کے الزام پر والد کو ہراساں کرنا اور یہ کہنا کہ اپنا مکان خالی کرو، ورنہ محلہ میں عذاب آجائے گا، اور ان کے گھر میں خوف وہراس پھیلانا،یا پولیس کےذریعے دھمکانا شرعاً درست نہیں ہے۔

2)۔۔۔باقی  گناہ کی وجہ سے کسی پر توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحیم ذات کسی پر اتنی جلدی عذاب نازل کرتی ہے، جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ دین سے ناواقف ہیں، ان کی بات درست نہیں۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن العبد إذا اعترف ثم تاب تاب الله عليه."

(ترجمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرکے (سچے دل سے) توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما(کر اسے معاف فرما) دیتے ہیں۔

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربها تاب الله عليه. رواه مسلم."

ـ(ترجمہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما(کر اسے معاف فرما) دیں گے۔

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  إن الله تعالى جعل بالمغرب بابا عرضه مسيرة سبعين عاما للتوبة لا يغلق ما لم تطلع عليه الشمس من قبله."

(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جو (چوڑائی میں) ستر سال کی مسافت کے برابر ہے، وہ دروازہ تب تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج اس (مغرب) کی طرف سے طلوع نہ ہوجائے۔

(كتاب الدعوات، باب التوبۃ والاستغفار، الفصل الأول والثانی، 1/ ، 206، 207، ط:رحمانيۃ)

إعلاء السنن میں ہے:

" البینة علی المدعی والیمین  علی المدعی علیه."

(کتاب الدعوی،باب البینة علی المدعی والیمین علی من انکر،15 / 351،ط إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فصل) : وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."

(كتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، 9/ 250، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں