بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بد دعا کا تدارک کیسے ہو؟


سوال

میں ایک  نا عاقبت اندیش عورت ہوں، مزاج کی تیز ہونے کی وجہ سے ہمیشہ نقصان اٹھایا ، مگر نصیحت نہیں لی، میں نے اپنے شوہر کو بد دعا دی اور وہ دنیا سے چلے گئے ، مجھ سے ایک دن بیٹی نے نہایت بے ادبی کردی، وہ جہاں  شادی کرنا چاہتی ہے ان کو بار بار بلانے کا کہہ رہی تھی،  میں نے منع کیا  تو اس نے بدزبانی کی اور میرے دل سے بد دعا نکلی کہ اللہ کرے وہ  تجھے کبھی نصیب نہ ہو، اب  جب اس لڑکے  کے گھر والوں سے ملی ہوں تو بہت بھلے لوگ   ہیں ، لڑکا نیک ہے۔مگر رشتہ مانگا تو   وہ  لوگ  پھر نہیں  آئے ۔ بیٹی اس کے غم میں گھلتی ہے، اور اس کی وجہ   مجھے اپنی بددعا نظر آتی ہے۔کیا  کوئی کفارہ  ہے جو میری بددعا کو ضائع کردے؟

جواب

کسی مسلمان کے لیے ناحق بد دعا کرنا  جائز نہیں ہے، بلکہ کسی کے حق میں کسی مصیبت کے آنے  کی تمنا کرنا بھی جائز نہیں ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق تو یہ ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ  پاک سے خیر  اور عافیت کی دعا کرے، نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرے۔

 بہرحال اگر سائلہ نے اپنی بیٹی اور شوہر  کو بد دعا  دی ہے  تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ معافی مانگیں، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، اوراب شوہر اور  بیٹی   کے حق میں خیر کی دعا کریں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے، ان شاء اللہ امید ہے کہ اگر  اس  رشتے میں آپ کی بیٹی   کے لیے خیر ہوگی؛ تو اسے مقدر  فرما دیں گے۔بصورتِ دیگر ان شاء اللہ اس سے بہتر رشتہ بھیج دیں گے۔ نیز بیٹی کا اگر وہاں رابطہ تھا تو اسے رشتے کے حوالے سے سمجھانے کے ساتھ ساتھ  رابطہ و بات چیت سے روکیے، اور اس کے لیے بھی دعا کیجیے کہ اگر یہاں رشتہ مقدر نہیں ہے تو اللہ تعالی اس کا دل یہاں سے ہٹادے۔

تفسیرِ مدارک میں ہے:

{وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا} [الاسراء-11]

{وَيَدْعُ الإنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهُ بِالْخَيْرِ} أي ويدعو الله عند غضبه بالشر على نفسه وأهله وماله وولده كما يدعو لهم بالخير أو يطلب النفع العاجل وإن قل بالضرر الآجل وإن جل {وَكَانَ الإنسَانُ عَجُولاً} يتسرع إلى طلب كل ما يقع في قلبه ويخطر بباله لا يأتى فيه تأني المتبصر أو أريد بالإنسان الكافر وأنه يدعوه بالعذاب استهزاء ويستعجل به كما يدعو بالخير إذا مسته الشدة وكان الإنسان عجولاً يعني أن العذاب آتيه لا محالة فما هذا الاستعجال."

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل (2 / 248)، الناشر: دار الكلم الطيب، بيروت)

یعنی انسان جس طرح جلدی سے بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے، تکلیف کے موقع پر ناراض ہو کر اپنے نفس اور اہل و عیال اور مال و اولاد  کے لیے بد دعا کرتا ہے، جیسا کہ ان  کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے۔ نیز  جلد  ملنے  والے نفع کا طالب ہے،  اگرچہ وہ نفع قلیل مقدار میں ہو، اس نقصان کے بدلے میں جو بدیر آنے والا ہو؛ اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ اور انسان جلد باز پیدا ہوا ہے، ہر وہ چیز جو اس کے دل میں آتی ہے، اس کو جلد طلب کرتا ہے، صابر شخص کی طرح انتظار نہیں کرتا۔ 

حدیث میں ہے:

"(3009) سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بطن بواط، وهو يطلب المجدي بن عمرو الجهني، وكان الناضح يعتقبه منا الخمسة والستة والسبعة، فدارت عقبة رجل من الأنصار على ناضح له، فأناخه فركبه، ثم بعثه فتلدن عليه بعض التلدن، فقال له: شأ، لعنك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من هذا اللاعن بعيره؟» قال: أنا، يا رسول الله قال: «انزل عنه، فلا تصحبنا بملعون، لا تدعوا على أنفسكم، ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء، فيستجيب لكم»"

(صحيح مسلم (4 / 2304)،  باب(18): حديث جابر الطويل وقصة أبي اليسر، كتاب الزهد والرقائق، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگ ہوکر اپنے خلاف اپنی اولاد کے خلاف اور اپنے اموال کے خلاف بد دعا نہ کیا کرو کہیں یہ بددعا اس گھڑی کے موافق نہ ہوجائے جس میں دعا قبول ہوجاتی ہے۔"

ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:

فَقَالَ: «لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ»

(سنن أبي داود (3 / 191)، بَابُ تَغْمِيضِ الْمَيِّتِ، كِتَاب الْجَنَائِزِ، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

"اپنے اوپر دعا نہ کرو مگر خیر کی، اس  لیے فرشتے تمہاری دعا پر آمین کہتے ہیں"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200387

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں