بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں میں جائیداد کی تقسیم


سوال

1: اگر شرعی وارث صرف بىٹىاں هىں تو تىسرا حصه کس کو ملے گا ؟

2: کىا والدىن اپنى جائیداد اپنى بىٹىوں کو اپنى زندگى مىں  دے سکتے ہیں ؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے شرعی ورثاء میں صرف بیٹیاں ہیں بیوہ، والدین، نرینہ اولاد نہیں ہے تو تیسرا حصہ مرحوم کے عصبہ رشتہ دار (بھائی بہن ان کی غیر موجودگی میں چچا اور ان کی غیر موجودگی میں چچا زاد بھائیوں، الغرض عصبہ وارثوں (آبائی خاندان کے مردوں) کو  ملے گا ۔

2: ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملکیت میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز  والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور ایسے ہبہ میں اولاد کے درمیان برابری ضروری ہوتی ہے، الّا یہ کہ کسی معقول وجہ کی بناء پر کسی کو زیادہ دیا جائے، لیکن اگر والدین تمام جائیداد بیٹیوں میں دیگر ورثاء کو محروم کرنے کی نیت سے تقسیم کرے تو  ایسا کرنا گناہ کا کام ہوگا،اس لیے کہ اپنے وارث کو میراث سے محروم کرنے کی تدبیر اختیار کرنا سخت گناہ کا کام ہے اور اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:" جس نے اپنے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالی اسے جنت کی میراث سے محروم فرمائیں گے۔

البتہ اگر والدین کی ملکیت میں اور جائیداد بھی ہے، چاہے کسی بھی صورت میں ہو تو پھر بیٹیوں کو ہبہ کرنا گناہ نہیں ہو گا ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن أنس قال: «قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " من قطع ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة» ") قال الراغب: الوراثة انتقال قنية إليك عن غيرك من غير عقد وما يجري مجراه، وسمي بذلك المنتقل عن الميت، ويقال لكل من حصل له شيء من غير تعب فقد ورث كذا، ويقال لمن خول شيئا منها أورث قال تعالى {وتلك الجنة التي أورثتموها} [الزخرف: 72] (يوم القيامة) قال الطيبي - رحمه الله -: تخصيص ذكر القيامة وقطعه ميراث الجنة للدلالة على مزيد الخيبة والخسران، ووجه المناسبة أن الوارث كما انتظر فترقب وصول الميراث من مورثه في العاقبة فقطعه كذلك يخيب الله تعالى آماله عند الوصول إليها والفوز بها اه. وختم الله لنا بالحسنى وبلغنا المقام الأسنى. (رواه ابن ماجه) أي: عنه".

(کتاب البیوع، باب الوصایا، ج:5، ص:2040، ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وهب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ." 

(كتاب الهبة، الباب السادس فى الهبة للصغير، ج:4، ص:391، ط: مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144408100313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں