بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچی کی پرورش اوروالد کا نفقہ نہ دینا


سوال

میری بیٹی چارماہ پہلےانتقال کرگئی،اس کی 22ماہ کی بیٹی ہےجس کی پرورش کاحق آپ لوگوں نےفتوےمیں نانی کودیاہے،شوہراکیلاہےدادا،دادی بھی نہیں ہے،قانونی طورپروہ مہینےمیں ایک بارآدھاگھنٹہ مل سکتاہے،1: اب سوال یہ ہےکہ شرعی طورپروہ کتنی بارمل سکتاہے؟

2:نیزآپ لوگوں نےفتوےمیں پرورش کاحق نانا،نانی کودیاہےلیکن بچی کاباپ ہرہفتےمیں کبھی دودن کےلیےکبھی پانچ دن کےلیےخالہ کی گودمیں سےچھین کرلےجاتاہےحالاں کہ بچی باپ کےپاس آتی ہی نہیں اورروتی ہے،اوروہ بچی کوپھوپھیوں کےپا س لےکرچھوڑدیتاہے،کیاباپ کواس کااختیارہے؟جب کہ باربارلےجانےکی وجہ سےپرورش میں خلل پڑ  رہاہے۔

3:نیز باپ نےآدھےخرچےکاکہاتھالیکن ابھی تک دیانہیں ،بلکہ خرچہ ہم اٹھارہےہیں ،کیااگروہ خرچہ نہیں اٹھارہاتوپھرملنےکاحق دارہے؟

4: مزیدیہ کہ نانا،نانی ابھی زندہ ہےخدانخواستہ انتقال ہوجائےتومیری تین بیٹیاں ہیں جوکہ بچی کی خالائیں ہیں ان میں ایک بیٹی بغیرشادی شدہ ہے،اب سوال یہ ہےکہ نانا،نانی کےبعدکس کوحاصل ہے؟،جب کہ بچی کاباپ اکیلاہے،اورپھوپھیاں سب شادی شدہ ہیں۔

جواب

1: واضح رہےکہ پرورش کےدوران باپ کواپنی بچی سےملنےکاحق حاصل ہےوہ جب چاہےمل سکتاہے،لہذامذکورہ قانون کےمطابق باپ کومہینےمیں صرف ایک بارملاقات کی اجازت دینادرست نہیں ،البتہ دونوں خاندانوں کی رضامندی سےباپ کوبچی کی ملاقات کرنےکےلیےمناسب وقت اورطریقہ کارطےکرنازیادہ مناسب ہے۔

2: واضح رہےکہ جب تک بچی کی پرورش کاحق والد کےپاس نہیں ہے،اس دوران بچی کی والدکےلیےبچی کوان کی پرورش کی حق دار(نانی)سےدوسری جگہ لےجانادرست نہیں ،خاص کرجب یہ عمل پرورش میں خلل کاباعث بھی ہو۔

3:نیزجب تک بچی کی شادی نہیں ہوجائےاس وقت تک اس کانان ونفقہ والدپران  کےحیثیت کےمطابق لازم ہے،اگروہ وسعت کےباوجوداس میں کسی قسم کی کوتاہی کرتاہے،توشرعاً گناہ گارہوگا،تاہم خرچہ نہ دینےکی وجہ سےوالد کوبچی کی ملاقات سےروکنابھی درست نہیں ہے۔ 

4: چوں کہ بچی کے دادا،دادی ،بہن کوئی بھی نہیں ،لہذاجب تک بچی کی ،نانی حیات ہے تو بچی کی نوسال کی عمرتک پرورش کاحق اسی کوحاصل ہے،نانی  کی انتقال کےبعدبچی کی پرورش کاحق بچی کی  خالاؤں کوحاصل ہوگا،  البتہ جس خالہ کی شادی ایسی جگہ ہوئی ہوجواس بچی کی حق میں اجنبی (نامحرم)ہوتواس خالہ کی حقِ پرورش ساقط ہوجائےگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشر  فی الحضانہ ،ج:1،ص:543،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

" كما يمنع الأب من إخراجه من بلد أمه۔۔۔(قوله: من إخراجه) أي إلى مكان بعيد، أو قريب يمكنها أن تبصره فيه ثم ترجع لأنها إذا كانت لها الحضانة يمنع من أخذه منها فضلا عن إخراجه، فما في النهر من تقييده بالعبد أخذا مما يأتي عن الحاوي غير صحيح فافهم. (قوله: من بلد أمه) الظاهر أن غيرها من الحاضنات كذلك ط. (قوله: ما بقيت حضانتها) كذا في النهر وفيه كلام."

(باب الحضانۃ،ج:3،ص:570،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة ۔۔۔ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الرابع فی نفقۃ الاولاد،ج:1،ص:560/ 563)

فتای شامی میں ہے:

"(‌ثم ‌الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب۔۔۔(قوله: ‌ثم ‌الخالات) أي خالات الصغير."

(کتاب الحضانۃ،ج:3،ص:563،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں