بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے کان میں بذریعہ موبائل فون اذان دینے کا حکم


سوال

کیا بچے کے کان میں بذریعہ موبائل فون آن لائن اذان دی جاسکتی ہے؟

جواب

فقہائے کرام کے نزدیک عبادات کو اپنےمتوارث طور طریقوں کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے،اور بچے کے کان میں اذان دینا بھی عبادات کی قبیل سے ہے،اس لیے  بچے کے کان میں اذان دینے کاجو سنت اور متوارث طریقہ چلا آرہا ہے،اسے اس کی اصل شکل پر باقی رکھا جائے؛اس لئے  بچہ کے کان میں اذان  براه راست دی جائے، موبائل پر ازان دینے سے اذان کی سنیت ادا نہیں ہوگی۔

مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں ہے:

"عن حسين قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من ‌ولد ‌له ‌ولد، ‌فأذن في أذنه اليمنى، وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان."

(باب الأذان في أذن المولود، ج:4، ص:59، ط:مكتبة القدسي)

"حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے ہاں بچے کی ولادت ہو، تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے، اس کی برکت سے بچے کو اُم صبیان (بچوں کی مرگی) نقصان نہ پہنچا سکے گی۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يسن (لغيرها) كعيد.

وفي الرد: (قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم...الخ."

وفيه ايضا:

"(ويلتفت فيه) وكذا فيها مطلقا، وقيل إن المحل متسعا (يمينا ويسارا) فقط؛ لئلا يستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقا."

وفي الرد: (قوله: ولو وحده إلخ) أشار به إلى رد قول الحلواني: إنه لا يلتفت لعدم الحاجة إليه ح. وفي البحر عن السراج أنه من سنن الأذان، فلا يخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول. (قوله مطلقا) للمنفرد وغيره والمولود وغيره ط."

(كتاب الصلاة، باب الاذان، ج:1، ص:385/387، ط:سعيد)

تقریرات الرافعی علی الشامی میں ہے:

"قال السندي رحمه الله تعالى : فيرفع المولود عند ولادة على یديه مستقبل القبلة، ويؤذن في أذنه اليمنى، ويقيم في اليسرى، ويلتفت فيهما بالصلاة لجهة اليمين وبالفلاح لجهة اليسار، وفائدة الاذان في أذنه أنه يدفع أم الصبيان عنه."

(كتاب الصلاة، باب الاذان، ج:1، ص:45، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں