بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کا مسجد میں آنے کاحکم


سوال

 نماز کے دوران صفوں میں کوئی چھوٹا بچہ آ جائے تو کیا حکم ہے؟  کل نماز کے دوران ایک بچہ ہمارے درمیان آگیا تو نماز کے بعد ایک نمازی نے مجھے ڈانٹا کہ آپ نے بچے کو کیوں آنے دیا ۔ کیا ایسا ہونے سے نماز میں کوئی خلل ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ سائل کے  سوال  میں یہ وضاحت نہیں ہے  کتنا چھوٹا بچہ تھا ، اور اس بات کی بھی وضاحت نہیں ہے کہ نماز ی نے  کیوں  کہا کہ  بچہ کو کیوں آنے دیا  ۔

صورت مسئولہ میں     شریعتِ مطہرہ نے ولی کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ  سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کا حکم دیں،  لہذاسات سال یا اس سے زائد عمر کے  بچے باشعور ہو تے ہیں اور نماز کی ہیت کو کسی حد تک جانتے ہیں   اور سات سال کے بچوں کو  نماز پڑھنے کی ترغیب دینے کاحکم  ہے  تاکہ  ان کی نماز پڑھنے کی تربیت  ہو ، اور دس سال کی عمر میں   نماز نہ پڑھنے پر تنبیہ  کر نے کابھی حکم ہے ، لیکن سات سال کی عمر سے کم کے بچے اگر پاکی  و ناپاکی کی تمییز رکھتے ہوں  اور شوروشغب نہ کرتے ہوں تو  انہیں بھی  مسجد لانا یا بھیجناجائز ہے، بصورتِ دیگر بلا ضرورت  سات سال سے کم عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں، تاکہ وہ مسجد کو ناپاک نہ کریں،اگر ایک ہی نابالغ بچہ ہو تو اسے بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جائےاور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انہیں بالغوں کی صف کے پیچھے کھڑا  کیا جائے، مگر اس زمانے میں نابالغ  بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے ایک جگہ جمع ہوکر  نہ صرف اپنی نماز خراب کریں گے، بلکہ دوسروں کی نماز میں بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بچے کا سرپرست اسے اپنے ساتھ لے کر صف کی ایک جانب کھڑا ہو۔ نیز  بالغ اور باشرع افراد کی موجودگی میں پہلی صف میں امام کے قریب بچے نہ کھڑے ہوں، امام کے قریب وہ افراد کھڑے ہوں جو بوقتِ ضرورت امامت کرسکتے ہوں۔

کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچوں کو ڈانٹ کر ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی صف میں بھیجیں، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی اور وہ مسجد سے دور ہوسکتے ہیں۔ اگر بچے نماز کے دوران مسجد میں شوروغل کریں تو انہیں  نرمی اور محبت کے ساتھ سمجھا دینا چاہیے، سخت لہجہ سے پیش نہیں آنا چاہیے، اسی طرح نا سمجھ  بچہ اگر نمازی کے سامنے سے گزر جائے تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے، بلکہ نمازی کے آگے سے کسی بھی انسان (مرد و عورت) یا جانور کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے،  البتہ جان بوجھ کر نمازی کے سامنے سے گزرنا (خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مکلف ہو) سخت گناہ ہے۔

 سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((مُرُوا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عَشْر، وفرقوا بينهم في المضاجع)). رواه أحمد وأبو داود، وهو الصحيح".

(کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ،133/1،ط:المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعًا: «جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسلّ سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر»، بحر. 

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة 1 / 656 ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے :

(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيانثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى...و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال:  فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان". 

( كتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفكر)

المبسوط للسرخسی  میں ہے :

"و الدليل على أن مرور المرأة لايقطع الصلاة ما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلى في بيت أم سلمة فأراد عمر بن أبي سلمة أن يمر بين يديه فأشار عليه فوقف، ثم أرادت زينب أن تمر بين يديه فأشار عليها فلم تقف فلما فرغ من صلاته قال: "هن أغلب صاحبات يوسف يغلبن الكرام ويغلبهن اللئام".

(کتاب الصلاۃ،350/1،ط:دارالفکر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :

"(وكفت سترة الامام) للكل.

(قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة."

 (کتاب الصلاۃ،1/ 638،ط ، سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505100507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں