بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچپن میں ختنہ ہونے کے بعد کھال کا اکثر حصہ دوبارہ پیوست ہوگیا تو اب شادی کے موقع پر دوبارہ ختنہ کرانی ضروری ہے؟ اور ایسے شخص کی طہارت ، امامت اور نکاح کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال

ایک شخص کی ختنہ بچین  میں ہوئی ہےمگربچپن میں ٹھیک توجہ نہ دینے اور خیال نہ رکھنے کی وجہ سے اُس کاٹے گئے چمڑے کا اکثر حصہ واپس اپنی جگہ پیوست ہوگیا تھا،اب شادی کا مرحلہ قریب ہے ۔

۱۔کیا اس صورت میں دوبارہ ختنہ کرانی ضروری ہے؟

۲۔کیا ایسے شخص کی امامت درست ہے؟

۳۔کیا اس صورت  میں طہارت کے مسائل میں کمی نہیں آئےگی؟

۴۔کیا ایسے شخص کا  نکاح  کرنادرست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ختنہ کرناخصائص ِ اسلام  اورشعار اسلام  میں سےہے، اور ختنہ میں جتنا حصہ قطع کیا  جاتا ہے اگر اس کےنصف حصہ سے زائدقطع ہو جائے تو ختنہ ہوجاتی ہے ، اور اگر نصف حصہ یا اس سے کم قطع ہو تو ایسی صورت میں  ختنہ کرانے میں اگر قابلِ برداشت تکلیف ہو تو دوبارہ ختنہ کرانی چاہیے ، اور اگر ناقابلِ برداشت تکلیف ہو یا معتبر دیندار ڈاکٹر یہ کہیں کہ اب ختنہ کے لیے کھال قطع کرنا ممکن نہیں تو ایسی صورت میں دوبارہ ختنہ کرانی ضروری نہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ اکثر حصہ قطع ہوجانے کے بعد واپس پیوست ہوچکا ہے تو ایسی صورت میں اگر ختنہ کرانے میں قابلِ برداشت تکلیف ہو تو دوبارہ ختنہ   کرالینی چاہیے،اور اگر ناقابلِ برداشت تکلیف ہو یا معتبر دیندار ڈاکٹریہ کہیں کہ اب ختنہ کے لیے کھال قطع کرناممکن نہیں  تو ایسی صورت میں  دوبارہ ختنہ کرانا ضروری نہیں   ۔ باقی مذکورہ شخص  کی طہارت میں شبہ ضرور رہتا ہے تاہم اگر وہ   استنجاء اور طہارت میں پوری  احتیاط کرتا ہو توایسی صورت میں مذکورہ شخص امامت کراسکتا ہے نیز ایسے شخص کا نکاح کرنا بھی درست ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

غلام خُتن فلم تقطع الجلدة كلها فإن قطع أكثر من النصف يكون خِتاناً وإن كان نصفاً أو دونَه فلا، كذا في خزانة المفتين. وفي صلاة النوازل: الصبي إذا لم يُختن ولا يُمكن أن يمدّ جلدته لتقطع إلاّ بتشديد وحشفته ظاهرة إذا رآه إنسان يراه كأنه خُتن يَنظر إليه الثقات وأهل البصر من الحجامين، فإن قالوا هو علی خلاف ما يمكن الاختتان فإنه لا يشدّد عليه ويترك، كذا في الذخيرة.

(فتاوی ہندیہ، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر فی الختان....،ج:۵،ص:۳۵۷،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

الأقلف إذا اغتسل من الجنابة ولم يدخل الماء داخل الجلدة جاز، كذا في المحيط . وفي واقعات الناطفي وهو المختار، كذا في التتارخانية. ويدخل الماء القلفة استحباباً، كذا في فتح القدير .

(فتاوی ہندیہ، کتاب  الطہارۃ، الباب الثانی، الفصل الاول فی فرائض الغسل، ج:۱،ص:۱۴،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

قيل في ‌ختان ‌الكبير إذا أمكن أن يختن نفسه فعل وإلا لم يفعل إلا أن يمكنه أن يتزوج أو يشتري ختانة فتختنه وذكر الكرخي في الجامع الصغير ويختنه الحمامي كذا في الفتاوى العتابية .

(فتاوی ہندیہ، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر فی الختان....،ج:۵،ص:۳۵۷،ط:رشیدیہ)

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں