بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچپن میں کیے ہوئے وعدہ نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیٹی 6 سالہ نکاح میں دی (جس کا ایجاب قبول نہیں ہوا تھا، صرف دینے کا وعدہ کیا تھا) مذکورہ شخص نے جب شادی کی تو اس عورت کے ساتھ ایک عرصہ رہا، پھر دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تو مذکورہ شخص نے عورت کو طلاق دےدی، اب 6 سالہ بیٹی جس کو اپنے والد نے اپنے نکاح کے بدلے میں دینےکا وعدہ کیا تھا اب وہ 16/17 سال کی ہوگئئ، اور حافظہ عالمہ ہے، اور بچپن میں ان کے والد نے جس لڑکے کو دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ لڑکا چور اور چرسی ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ لڑکی کا جو بچپن میں دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا وہ نکاح  کہلائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق اس کے بچپن میں محض وعدہ کیا تھا، باقاعدہ نکاح نہیں کیا تھا (جیسا کہ سوال میں وضاحت موجود ہے) اور اب ایک عرصہ گزرنے کے بعد اس کو بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کا نکاح اُس جگہ مناسب نہیں ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنی لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر سکتا ہے، بچپن میں کیا ہوا وعدہ محض وعدہ  اور منگنی ہے، نکاح نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح، جلد:3، صفحہ:11، طبع: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔"

(کتاب النکاح، جلد:7، صفحہ: 110،  طبع: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں