اگر بچپن میں کوئی بڑا گناہ ہو گیا ہو اور بڑے ہوکر معافی مانگ لی ہو تو کیا توبہ قبول ہوتی ہے؟
واضح رہے کہ بلوغت سے پہلے کیے گئے گناہوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ کیوں کہ نابالغ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا لہذا سائل نے جوبچپن یعنی نابالغی میں گناہ کیا اس گناہ کی وجہ سے گناہ گارنہیں ہوا تھا لہذا اس پر توبہ بھی لازم نہیں ہے ،البتہ اگر وہ کسی کا مالی حق ہے تو وہ واپس کرنا لازم ہے۔
سنن ابن ماجةمیں ہے:
"عن عائشة ان رسول اﷲ ﷺ قال رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتي یستقیظ و عن الصغیر حتي یکبر وعن المجنون حتي یعقل او یفیق."
(ابواب الطلاق،باب طلاق المعتوه والصغير والنائم،١٩٨/٣،ط:دار الرسالة العالمية)
الاصل للامام محمد میں ہے :
"وليس على الصبي شيء قلت وكذلك لو كان شريكه فيها مجنونا أو معتوها أو رجلا عليه دين أو مكاتبا قال نعم."
(كتاب الزكاة،باب صدقة الغنم،2/20،ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية بكراتشي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409100441
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن