بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے پیدائشی بال منڈوانے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں بچے کے پیدائشی بال جب اتروائے جاتے ہیں تو درمیان میں تھوڑے بال چھوڑ دیتے ہیں کہ جب اس کا ختنہ کرائیں گے ،پھر اس کے بعد اتاریں گے ۔ میں نے ریسرچ کی تو دیکھا کہ ہندو اپنے ان  بچوں کو جن کو پنڈت بنانا ہو ان کے بال ایسے کٹواتے ہیں، آپ یہ بتائیں کہ  اس طرح کرنا  مسلمانوں کے لئے جائز ہے، اور اگر یہ غلط ہے تو براہ کرم اس کی آگاہی فرمائیں، مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے بیٹے کی مشابہت ہندو سے ہو، نیز یہ بھی بتائیں  کہ ختنہ عیسائی ڈاکٹر سے کروانا ٹھیک ہے جب کہ مسلمان ڈاکٹر موجود ہو؟

جواب

1)واضح رہے کہ سر کے بعض حصے کے بالوں کو کاٹنا اور بعض کو چھوڑنا شرعاً ممنوع ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ،جیسا کہ نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے  میں نے جناب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ آپ قزع سے منع فرماتے تھے ،حضرت نافع  رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قزع کیا چیز ہے؟انہوں نے کہا کہ سر کا کچھ حصہ مونڈا جائے اور کچھ حصہ چھوڑا جائے ،اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ اس کا کچھ سر مونڈا گیا تھا اور بعض حصہ چھوڑ دیا گیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی پرورش کرنے والوں کو اس سے منع کیا اور فرمایا تمام سر مونڈو یا تمام چھوڑ دو "(ترجمہ از مظاہر حق)، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قزع کو کفار سے مشابہت بھی بتلایا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ  میں  پیدائش کے بعد بچوں کے سر کا بعض حصہ منڈوانا اور بقیہ سر ختنہ کے وقت منڈوانا  شرعاً ناجائز ہے ،مسلمانوں پر لازم ہے کہ مذکورہ رسم سے احتراز کریں ۔

2)ماہر عیسائی ڈاکٹر سےختنہ کروانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ،البتہ ماہر مسلمان ڈاکٹر کو ترجیح دینا بہتر ہے ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ابن عمر   رضي الله عنهما  قال"سمعت النبي   صلى الله عليه وسلم  ينهى عن القزع  قيل لنافع: ما القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي، ويترك البعض"(بعض رأس الصبي، ويترك البعض) : قال النووي: القزع حلق بعض الرأس مطلقا وهو الأصح ; لأنه تفسير الراوي وهو غير مخالف للظاهر، فوجب العمل به."

(کتاب اللباس ،باب الترجل،ج:7،ص:2818،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وعن ابن عمر  رضي الله عنهما "أن النبي  صلى الله عليه وسلم  رأى صبيا قد حلق بعض رأسه وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: " احلقوا كله أو اتركوا كله"(احلقوا كله) : أي كل الرأس أي شعره."

(کتاب اللباس ،باب الترجل،ج:7،ص:2818،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وعن الحجاج بن حسان، قال  دخلنا على أنس بن مالك   رضي الله عنه  فحدثتني أختي المغيرة، قالت: وأنت يومئذ غلام، ولك قرنان، أو قصتان، فمسح رأسك، وبرك عليك، وقال " احلقوا هذين أو قصوهما ; فإن هذا ‌زي ‌اليهود "(فإن هذا) : أي الزي (‌زي ‌اليهود) : بكسر الزاي وتشديد الياء أي زينتهم وعادتهم في رءوس أولادهم فخالفوهم."

(کتاب اللباس ،باب الترجل،ج:7،ص:2845،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره ‌القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب."

(کتاب الحضر و الاباحۃ ،ج:6،ص:407،ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"‌وأفاد ‌في ‌النهر تبعا للبحر جواز التطبيب بالكافر فيما ليس فيه إبطال عبادة (قوله ‌وأفاد ‌في ‌النهر) أخذا من تعليل المسألة السابقة باحتمال أنيكون غرض الكافر إفساد العبادة. وعبارة البحر وفيه إشارة إلى أن المريض يجوز له أن يستطب بالكافر فيما عدا إبطال العبادة ط."

(كتاب الصوم ،ج:2،ص:243،ط:سعيد)

مشكاة المصابيح ميں هے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل ‌أمر ‌ذي ‌بال لا يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع."

(كتاب النكاح، ج:2،ص:942،ط:المكتب الاسلامي)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال)  غیر  مسلم ڈاکٹر ( سکھ یا ہندو) سے لڑکے کی ختنہ کرانی جائز ہے یا نہیں ؟

(جواب )  واقف کار غیر مسلم ڈاکٹر سے ختنہ کرانا جائز ہے،   محمد  کفایت اللہ  کان اللہ لہ۔"

(کتاب الختان و الخفاض،ج:2،ص:346،ط:دار الاشاعت)

 فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144502100631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں