میں نے اپنی بیوی کو 2019ء میں ایک مرتبہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"کے الفاظ کے ساتھ طلاق دی، پھر رجوع ہوگیا،اس کے بعد 2022ء میں تین مرتبہ"میں تمہیں اب طلاق دیتا ہوں"کےالفاظ کے ساتھ تین طلاقیں دی،میرے دو بیٹے ہیں،ایک بیٹے کی عمر تقریباً تین سال اور دوسرے کی پانچ سال ہے،طلاق دینے کے بعد میری بیوی امی کے گھر چلی گئی،اور میں گھریلو معاملات میں الجھ گیا،جس کی وجہ سے بچوں کاخرچہ اب تک نہیں دے سکا، سوال یہ ہے کہ:
1۔کیا میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟
2۔میرے بچوں کا شرعاً کیا حکم ہے،ان کے پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو پہلی بار ایک مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ :"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"تو ان الفاظ سےسائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی تھی،پھر رجوع کرلینے سے نکاح برقرار تھا اور آئندہ کے لیے سائل کو فقط دو طلاقوں کا حق حاصل تھا، پھر جب سائل نے تین مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی کہ :"میں تمہیں اب طلاق دیتا ہوں" تو ان الفاظ سے بیوی پر مجموعی طور پر تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں ،بیوی شوہر(سائل) پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،دوبارہ رجوع یا نکاحِ جدید کا اختیار بھی باقی نہیں ہے،عدت (تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو ، حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش تک )کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
2۔میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں بچے (بیٹے)سات سا ل کی عمرہونے تک اپنی والدہ کی پرورش میں رہیں گے،جب کہ بچوں کی عمر سات سال مکمل ہونے کے بعد والد کو لینے کا حق حاصل ہوگا۔اور بلوغت کے بعد بچوں کو اختیار ہوتاہےکہ والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہیں رہیں۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ دونوں بچوں کی عمریں بالترتیب پانچ اور تین سال کی ہیں ،لہذا وہ والد ہ کی پرورش میں رہیں گے۔نيز بہر صورت بچوں كے نان ونفقہ کی ذمہ داری والد پر لازم ہے۔گزشتہ عرصے کا خرچہ سائل ادانہیں کیا،تو یہ غلط کیا ہے،بچوں کی پرورش اور تعلیم کا خرچہ سائل ہی کو اداکرنا چاہیے ،لہذا یہ خرچہ اگر سائل کے نہ دینے کی وجہ سے بچوں کے ننھیال نے ادا کیاہے،تو ان سے اس بارے میں پوچھے ،اگر وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بطورِ تبرع خرچ کیاہے،تو پھر ان کو اجر ملے گا،اور خرچہ لوٹانے کی ضرورت نہیں،اور اگر وہ اس کا مطالبہ کریں،تو دے دینا چاہیےاور آئندہ ان کا خرچہ مقرر کرکے دینے کا اہتمام کرے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(كتاب الطلاق، الرجعة، فصل في شرائط رجوع المبتتوتة ،187/3، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب۔۔۔(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، 566/567/3، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."
(كتاب الطلاق، باب النفقات، الفصل الرابع، 560/1، ط:دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605100097
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن