میرے 4 بچے پیدا ہوئے ہیں، جن میں سے دو بچے پیدائشی مسئلہ genetic بیماری جس کا نام pseudo hypo aldosteronism ہے، اس بیماری کی وجہ سے پیدائش کے کچھ دن بعد بچہ فوت ہوجاتا ہے، میری پہلی اولاد اور تیسری اولاد فوت ہوئی ہے، جب کہ دوسری اور چوتھی الحمدللہ صحت مند ایکٹِو ہیں، اب میری زوجہ پانچویں بار ہماری غلطی سے حاملہ ہے، ہم یہ اولاد نہیں چاہتے؛ بوجہ اس بیماری کے، اسی خوف سے حمل کے پہلے ہفتے میں گولیاں لی بھی تھیں حمل گرانے کی، مگر اب 56 دن بعد جا کے علم ہوا کہ ابھی بھی بچہ حمل میں صحیح سلامت زندہ ہے، مُجھے رہنمائی اور فتویٰ درکار ہے کہ کیا میں اس حمل کو ختم کر سکتا ہوں؟
کسی انسان کی زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہے، نہ ہی بیماریوں سے موت ہوتی ہے، اور نہ ہی ہر بیمار کا مرجانا یقینی ہے، البتہ اللہ تعالیٰ عموماًدنیا کے ظاہری اسباب کو موت کا سبب بنا دیتے ہیں، باقی اصل موت اور زندگی کا تعلق بیماریوں سے نہیں ہے،نیز شریعت میں جب تک عورت کو (کسی سخت بیماری یا جان کے خطرے کا) عذر نہ ہو حمل ساقط کرنا جائز نہیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دو بچوں کے فوت ہو جانے کی وجہ سے موجودہ حمل گرانا، یا حمل گرانے کے لیے دوائیں استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے، جب کہ سائل کے دو بچے صحیح سلامت زندہ بھی ہیں، تو صرف اس گمان کی وجہ سے کہ تیسرا بچہ بھی بیمار ہوگا حمل گرانا جائز نہیں چاہے وہ جتنے دن کا بھی ہو،اللہ تعالیٰ سے بچوں کی صحت کی دعا کریں، اور صدقہ خیرات بھی کرتے رہے، اور اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھیں، ان شاء اللہ عافیت رہے گی،اور اللہ کے بارے میں جیسا گمان ہو گا اللہ کی جانب سے ویسا ہی معاملہ ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويكره أن تسعى لإسقاط حملها … وجاز لعذر حيث لا يتصور.
(قوله ويكره إلخ) أي مطلقا قبل التصور وبعده على ما اختاره في الخانية كما قدمناه قبيل الاستبراء وقال إلا أنها لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) كالمرضعة إذا ظهر بها الحبل وانقطع لبنها وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاك الولد قالوا يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم يخلق له عضو وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما، وجاز لأنه ليس بآدمي وفيه صيانة الآدمي خانية (قوله حيث لا يتصور) قيد لقوله: وجاز لعذر والتصور كما في القنية أن يظهر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلك."
(کتاب الحظر والأباحة، فصل في البيع، 6/ 429، ط:سعید)
فقط والله إعلم
فتوی نمبر : 144512100501
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن