بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے پیشاب کا حکم


سوال

میں مہاراشٹر سے ہوں،  میری شادی کو دو سال ہوچکے ہیں،  میرا سسرال دین سے بہت دور ہے،  ناپاکی اور گندگی بہت ہے،  صحیح غلط بتانے پر بھی وہ نہیں سیکھتے،  گالیاں بہت دیتے ہیں،  بچوں کو بستروں پراور  کھانے پینے کی جگہوں پر پیشاب کرواتے ہیں،  اور کہتے ہیں کہ بچوں کا پیشاب پاک ہوتا ہے۔  مجھ کو اس گھر کے ماحول میں ڈپریشن بہت رہتا ہے،  میں کیا کروں؟  رہنمائی فرمائیں!

جواب

بچوں کے پیشاب کا حکم یہ ہے کہ بچہ خواہ شیر خوار ہو یا بڑا ہو، اس کا پیشاب اسی طرح نجس ہے جس طرح بڑوں کا پیشاب نجس ہے،  اگر کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے، تو اسے پاک کرنا شرعًا ضروری ہے، کپڑا ناپاک ہوا ہو تو  اسے تین مرتبہ اس طور پر دھونا ضروری ہوگا کہ ہر مرتبہ دھونے میں نیا پانی لیا جائے، اور ہر مرتبہ اچھی طرح نچوڑا  جائے۔

باقی سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق اگر واقعتًا  سسرال میں کھانے پینے، صفائی ستھرائی، اخلاق اور دیگر حقوق کا خیال نہیں رکھاجاتا تو از رُوئے شرع سسرال  کا اس طرح کا رویہ ٹھیک نہیں ہے جو کہ آپ کے بچوں کے  لیے بھی نقصان دہ ہوگا، آپ کے شوہر کو چاہیے کہ اگر مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے حقوق پامال ہورہے ہوں تو وہ اپنی استطاعت کے موافق آپ کے لیے الگ رہائش کا انتظام کر کے آپ کو وہاں رکھے، یہ آپ کا حق ہے، لیکن جب تک شوہر الگ رہائش کا انتظام نہ کرسکے اس وقت تک آپ شوہر کو تنگ کرنے اور ستانے کے بجائے ان کے گھر میں رہتے ہوئے صبر سے کام لیں اور اپنی ہمت کے موافق شوہر اور ساس کی خدمت کریں تو یہ آپ کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا، ورنہ شوہر کو  تنگ کرنے سے سارا اجر ضائع ہونے کا خطرہ  ہے۔ اور حکمت و تدبیر کے ساتھ انہیں دینی احکام کی اہمیت سمجھائیں، پنج وقتہ نمازوں کے بعد اور تہجد اور غروبِ آفتاب کے اوقات میں ان کے لیے صدقِ دل سے دعا بھی کریں، گھر میں  "فضائلِ اعمال"  کی تعلیم اور  "بہشتی زیور"  سے  انہیں مسائل بتانے کا سلسلہ دھیرے دھیرے شروع کیجیے، امید ہے ان شاء اللہ بات دل میں اتر جائے گی۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"قوله: "وبول ما لايؤكل لحمه" شمل بول الحية فإنه مغلظ كخرئها كما في الحموي على الأشباه وقالوا: مرارة كل شيء كبوله وبول الخفاش وخرؤه لا يفسد لتعذر الاحتراز عنه كما في الخانية قوله: "ولو رضيعا" لم يطعم سواء كان ذكرا أو أنثى وفصل الإمام الشافعي رضي الله عنه فقال: يجزىء الرش في بول الذكر ولا بد في بول الأنثى من الغسل."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص: 154، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں