بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے نان نفقہ کا حکم


سوال

میں حافظ قرآن ہوں اور قاری ہوں، میں2000ء میں حفظ قرآن پاک مکمل کیا، اوراس کے بعد سے تدریس ناظرہ  قرآن پاک اور حفظ قرآن پاک کی کلاس پڑھانے لگا۔اور اس دوران اپنی دنیاوی تعلیم حاصل کی؛ کیوں کہ والدین کا انتقال ہوگیا تھا تو اپنی ساری ذمہ داری خود پرتھی۔2009 میں گریجویٹ کر رہا تھا کہ میرا اپنی ماموں زاد بہن سے نکاح  کا پیغام لے کر میرے ماموں جو کہ نابیناا اور خود پروفیسر تھے خود میرے پاس میرے بھائی کے گھر آ ئے،میں نے ہاں کر دیا،  لڑکی کزن مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی تھی،  جو ایک مشہور اسلامی بینک میں ملازمت کر رہی تھی، جوکہ بعد میں  میرے کہنے پر چھوڑ دیا، شادی کے چار سال تک میں ملازمت کرتا رہا، اچانک سے میری طبیعت خراب ہو گئی، اور میری جاب ختم ہوگئی،  گھر میں فاقہ جیسی نوبت،  کسی رشتے دار ، کوئی بھائی بہن کسی نے مدد نہیں کی،لہذا  اب بحالتِ مجبوری اہلیہ کو دوبارہ اسلامی بینک میں ملازمت اختیار کرنی پڑی،  جو وہ مکمل پردہ میں جاتی ہے، مگر پرابلم یہ ہے کہ اب وہ جاب نہیں چھوڑتی،  اور میں پانچ سال سے گھر میں بےروزگار ہوں، اور گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کر رہاہوں، اور شام میں اہلیہ کے آ نے کے بعد ہوم ٹیوشن پڑھاتا ہوں، سوال یہ ہے کہ نان نفقہ میری ذمہ داری تھی جو میں پورا نہیں کر سکا،کیازندگی کی گاڑی کو ایسے چلنے دوں؟ یا میں غلطی پر ہوں؟

جواب

از روئے شرع بچوں کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ لازم ہیں، بیوی کے ذمہ بچوں کےاخراجات لازم نہیں ہیں، البتہ  اگر کسی مجبوری کی بنا  پر  بچوں کے اخراجات شوہر  پورے  نہیں کرسکتا اور بیوی کے پاس مال ہے، یا کوئی جائز روزگار ہے تو بیوی اپنے مال سے پورا  کرے، تاہم  بیوی جتنا خرچ کرے گی شوہر کے ذمے  وہ قرض ہوگا، اور شوہر کے  ذمے مالی استطاعت حاصل ہونےکےبعد اس کی ادائیگی لازم ہوگی،  اور  اگر بیوی  اخلاقی طور  اپنی خوشی سےبچوں کی ضروریات پوری کرتی ہے،تو یہ  اس کی طرف سےاپنے اہل وعیال پر صدقہ ہوگا،جو خوش حال زندگی گزارنے کاذریعہ اور قابلِ تحسین عمل ہوگا، حدیث شریف میں اس کی بڑی فضیلت  آئی ہے،جیسا کہ منقول ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنھاجواپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تنگ دستی کی وجہ سے دست کاری کا کام کرکے گھریلو اخراجات پورا کرتی تھیں،رسول اللہ ﷺ نےان کے اس عمل کو خوب سراہا،اور فرمایا کہ زینب کا اپنےگھر پر خرچ کرنا صدقہ ہے،اور اس کی وجہ سے ان کے لیے  دو اجر  ہیں:1، قرابت کا، 2،صدقہ کا۔

البتہ چوں کہ بینک میں ملازمت کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے،  لہٰذا سائل پر لازم ہے کہ اپنی اہلیہ کو بینک کی ملازمت سے  روکے، بصورتِ دیگر بینک سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال نہ خود کرےاور نہ ہی اپنے بچوں پر ہونے  دے، اور  خود کسی جائز روزگار ، ملازمت تلاش کرنے کی کوشش  کرے،  قدرِ ضرورت سہی، جہاں بھی حلال روزگار ملے وہ اختیار کرلے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنے  بچوں پر خرچ  کرے، ان شاء اللہ عنداللہ ماخوذ نہ ہوں گے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن زينب، امرأة عبد الله قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تصدقن، يا معشر النساء، ولو من حليكن» قالت: فرجعت إلى عبد الله فقلت: إنك رجل خفيف ذات اليد، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمرنا بالصدقة، فأته فاسأله، فإن كان ذلك يجزي عني وإلا صرفتها إلى غيركم، قالت: فقال لي عبد الله: بل ائتيه أنت، قالت: فانطلقت، فإذا امرأة من الأنصار بباب رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجتي حاجتها، قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ألقيت عليه المهابة، قالت: فخرج علينا بلال فقلنا له: ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبره أن امرأتين بالباب تسألانك: أتجزئ الصدقة عنهما، على أزواجهما، وعلى أيتام في حجورهما؟ ولا تخبره من نحن، قالت: فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من هما؟» فقال: امرأة من الأنصار وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أي الزيانب؟» قال: امرأة عبد الله، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لهما أجران: أجر القرابة، وأجر الصدقة ،"

(باب فضل الصدقة، رقم الحديث:1000، ط: دار احياء التراث العربي )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

( کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فى النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:560، ط:مكتبة رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكذا لو كان للصغير أم موسرة وأب معسر أمرت أن تنفق على الصغير، ويكون ذلك دينًا على الأب."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فى النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:558، ط:مكتبة رشيدية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208200546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں