بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے نام ستاروں کی مناسبت سے رکھنے کا حکم


سوال

کیا بچوں کے نام ستاروں سے یاحرف نکلوا کے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا ، اور جن ناموں کے معنی اچھے نہیں ہیں ان کو رکھنے سے منع کیا، خود آپ ﷺ نے بہت سے لوگوں کے ایسے نام جن کے معنی اچھے نہیں ہوتے ان کو تبدیل کرکے اچھے معنی والے نام رکھ  دیے؛   لہذا   نام کے اچھا اور بامعنی ہونے کا انسان کی شخصیت پر  اثر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے،  لیکن پیدائش کے دن اور تاریخ کا حساب کرکے یا ستاروں کی مناسبت سے نام رکھنے کا اہتمام کرنا اور اس سے نام کا انسانی شخصیت پر بھاری ہونا یا اس کے اچھا اثر ہونے کا عقیدہ رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔

نیز  نام رکھنے کا ادب یہ ہے کہ اس میں نیک لوگوں کی نسبت ملحوظ ہو، مثلاً انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا نیک مسلمانوں کے نام پر ہو، یا وہ اچھا بامعنی لفظ ہو، مختلف احادیثِ  مبارکہ میں بھی اسی کی ترغیب دی ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسمائكم» رواه أحمد وأبو داود"

"حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو قیامت کے دن تمہارے اور تمہارے باپ کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا اپنے نام اچھے رکھو۔ (یعنی والدین اولاد کے نام اچھے رکھیں)۔ رواہ احمد و ابوادؤد۔"

(مشکاۃ المصابیح، باب الاسامی، رقم الحديث:4768،  الفصل الثانی،ج:2،  ص: 408۔ ط: قدیمی)

ایک اور حدیث میں ہے:

"أبي وهب الجشمي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تسموا أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله عبد الله وعبد الرحمن وأصدقها حارث وهمام أقبحها حرب ومرة» . رواه أبو داود"

اور حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انبیاء کے ناموں پر نام رکھو۔ اور اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ ناموں میں سے ’’عبداللہ‘‘ اور ’’عبدالرحمٰن‘‘ ہے، اور مصداق کے اعتبار سے سب سے سچے نام ’’حارث‘‘ اور ’’ہمام‘‘ ہیں۔ اور سب سے برے نام ’’حرب‘‘ اور ’’مرہ‘‘ ہیں۔ رواہ ابوداؤد۔

(مشکاۃ المصابیح، باب الاسامی، رقم الحديث:4782،  الفصل الثالث،ج:2،  ص:409۔ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں