بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے بستر اور سونے کے لیے کمرے جدا کرنے کا حکم


سوال

حدیث شریف میں بچوں کے دس سال کا ہوجانے پر ان کا بستر الگ کرنے کا حکم ہے،  لیکن یہ وضاحت کہیں موجود نہیں کہ کب ان کو الگ کمرے میں منتقل کر دیا جائے (سونے کے لیے)۔  میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ کم از کم پندرہ سال تک بچے کو اپنے کمرے میں ہی سلایا جائے،  مگر ایک عزیزہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی وجہ سے آپ سے رجوع کر رہا ہوں ۔

جواب

حدیث شریف کے مطابق دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر جدا کردینے چاہییں، یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کے بستر  بھی باہم جدا کردیے جائیں، اسی طرح لڑکا ہے تو  ماں سے اس کا بستر جدا کردیا جائے اور لڑکی ہے تو والد سے اس کا بستر جدا کردیا جائے۔

اور اگر بچہ یا بچی دس سال کی عمر سے  پہلے سمجھ دار ہوجائے یا جسامت میں اتنے ہوں کہ شہوت کا اندیشہ ہو تو اس سے کم عمر میں ہی بستر جدا کردینے چاہییں۔

یاد رہے کہ احادیث میں نبی کریم ﷺنے "مضاجع"یعنی سونے کی جگہیں جدا کرنے کا حکم دیا ہے، سونے کے لیے جدا کمروں کے انتظام کا حکم نہیں دیا، نیز ہر ہر فرد کے لیے اپنی اولاد کو جدا کمروں کی سہولت دینا بھی ممکن نہیں، اور جس مقصد سے مذکورہ حکم دیا جارہا ہے وہ بستر جدا کرنے سے بنیادی طور پر حاصل ہوجاتا ہے؛ اس لیے دس سال کی عمر میں  اکٹھے ایک بستر پر انہیں سلانے کی اجازت نہیں ،اس عمر میں ان کے بسترجدا کردینااور بستروں کے درمیان مناسب فاصلہ پیدا کردینا کافی ہے، نیز اگر کسی شخص کے لیے سہولت ہوتو لڑکوں کے لیے جدا اور لڑکیوں کے لیے جدا کمرے کا انتظام کردینا کافی ہوگا۔

سنن أبي داود  (1 / 185):

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفرقوا بينهم فى المضاجع »".

مصنف ابن أبي شيبة (1/ 304):

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشراً، وفرقوا بينهم في المضاجع»".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 278):

"قال المناوي في فتح القدير: أي: فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشراً، حذروا من غوائل الشهوة وإن كن أخوات. انتهى. قال الطيبي: إنما جمع بين الأمر بالصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظة لأمر الله تعالى، لأن الصلاة أصل العبادات، وتعليماً لهم المعاشرة بين الخلق، وأن لايقفوا مواقف التهم، فيجتنبوا محارم الله كلها. انتهى".

عون المعبود شرح سنن أبي داود (مراجع) - (2 / 162):

"(بينهم في المضاجع ): أي المراقد. قال المناوي في فتح القدير شرح الجامع الصغير: أي فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشرًا حذرًا من غوائل الشهوة إن كن أخوات. قال الطيبي، جمع بين الأمر بالصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديبًا لهم ومحافظة لأمر الله كله وتعليمًا لهم والمعاشرة بين الخلق، و أن لايقفوا مواقف التهم فيجتنبوا المحارم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں