بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں شرعی احکام


سوال

ہماری مسجد میں لوگ تراویح پڑھتے ہیں ، لیکن پچھلی صفوں میں 12۔13سال کے بچے یا چھوٹے شور کرتے ہیں تو نمازی حضرات پریشان ہوتے ہیں اور کسی نے کہا کہ بچوں کو ساتھ نہ لائیں تو نوبت لڑائی تک جا پہنچی کہ اگر آج ان کو ساتھ نہ لائیں تو کل کو یہ بڑے ہو کر مسجد نہیں آئیں گے، لہذا ان کو عادت ہو جائے اس لئے آتے ہیں، تو اب بچوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ  کا حسن  ہے کہ اس نے فوائد  کی بھی  رعایت  رکھی ہے اور نقصانات  سے  بچنے کابھی اہتما م کیا ہے،  شریعت کی تعلیمات افراط وتفریط  کے درمیان اعتدال پر مبنی  ہیں، بچوں کو مسجد میں لانے یا نہ لانے  سے متعلق بھی احکاماتِ  شرعیہ اعتدال پر مبنی ہیں، مطلقًا ہر قسم کے بچوں کو لانا جائز ہے ، نہ ہی  ہر قسم کے بچوں کو لانا منع ہے۔

بچوں کو مسجد میں لانے میں جہاں یہ اندیشہ ہے کہ مسجد میں شوروشغف ہوگا ،عبادات کاماحول متاثر ہوگا اوراپنی کم عمری کی وجہ سے بچے بسااوقات مسجد میں گندگی بھی کردیتے ہیں، جب کہ  مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا تقدس و احترام بھی لازم ہے، اور  وہاں ہر قسم کا شور وشغب، بلکہ دنیاوی  باتیں کرنا بھی منع ہے،لیکن دوسری طرف  بچوں کواپنےساتھ  مسجدلانے میں یہ فوائدبھی  ہیں کہ ابتدا  ہی سے ان کی مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی عادت بن جائے گی، جو کہ پسندیدہ چیز ہے۔

بصورتِ مسئولہ جو بچے بالغ ہیں یا قریب البلوغ ہیں جیسے بارہ تیرہ سال کے بچے  ان کو مسجد میں لانا لازم بھی ہے،کیوں کہ شرعی احکام ان کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں، بلکہ جو دس سال کے ہوچکے ہیں،تو  ان کو تو مردوں کے صفوں کے درمیان میں کھڑا کردیا جائے،باقی چھوٹے بچے جو سات سال سے بھی کم ہےجومسجد کے آداب اور پاکی کا خیال نہیں رکھ سکتےاور ان کی وجہ سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہے،  ان کو مسجد میں لانا  بالکل مناسب نہیں ہے، البتہ سمجھ دار  بچے جو مسجد کی پاکی اور آداب کا خیال رکھ سکتے ہوں، جو عام طور پر سات سال سے دس سال کے درمیان ہیں، جن کے لیے نماز کا تربتیی حکم ہے، ان کو نماز کی ترغیب کے لیے مسجد میں لانا جائز ہے، البتہ ساتھ لانے والے کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنے قریب کھڑا کرکے نماز پڑھائیں؛ تاکہ کسی کی  نماز میں خلل واقع نہ ہو۔

باقی اگر کبھی بچے شور کریں تو ان کو پیا  رمحبت سے سمجھا دیا جائے، الگ الگ  کھڑا کردیا جائے، لیکن انہیں جھڑک دینا درست طرزِ عمل نہیں ،بچے کامسجد میں شور مچانا اتنا گناہ نہیں ہے، جتنا اس کو  روکنے کے لیے کسی عاقل بالغ کا شور مچانے سے ہوتا ہے،مسجد میں  اپنی آوا ز  بلند کرلینا یہ آدابِ مسجد کے خلاف اور گناہ کا باعث ہے، اس سے اجتناب کیا جائے، اسی طرح بچے کے سرپرست کا بے شعور بچوں کو مسجد میں لانا،اور پھر  لاکر اسے شور مچاتے اور کھیلتے ہوئے چھوڑدینا،کنٹرول  نہ کرنا،  جن سے مسجد کی ناپاکی  یا بے حرمتی کا اندیشہ ہو، درست نہیں ،ایسی صورت میں اس بے حرمتی  اور نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا کرنے کا گناہ ان بچوں کو مسجد میں لانےوالے سرپرستوں کی گردن پر ہوتا ہے۔

مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع عن داود بن سوار عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال نبي الله -صلى الله عليه وسلم-: "مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشرا، وفرقوا بينهم ‌في ‌المضاجع."

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔

(متى يؤمر الصبي بالصلاة؟، ج: 3، ص: 363، ط: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض - السعودية)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن واثلة بن الأسقع، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع أصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع»."

(  کتاب المساجدوالجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد،ج:1، ص:247،  ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"هي فرض عین علی کل مکلف ... ثمّ المکلف هو المسلم البالغ العاقل و لو أنثی أو عبدًا".

( کتاب الصلاۃ،  ج:1، ص:351، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى."

( كتاب الصلاة، باب الإمامة ج:1، ص:571،  ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

" ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره

(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري " مرفوعًا «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر» " بحر. والمطاهر جمع مطهرة بكسر الميم، والفتح لغة: وهو كل إناء يتطهر به كما في المصباح، والمراد بالحرمة كراهة التحريم لظنية الدليل. وأما قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125]- الآية فيحتمل الطهارة من أعمال أهل الشرك تأمل؛ وعليه فقوله وإلا فيكره أي تنزيها تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،ج:1، ص:656،  ط: سعید)

تقریرات الرافعي علی الدر میں ہے:

"وفي الرافعي: قال الرحمتي وربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضهم ببعض وربما تعدی ضررهم إلی إفساد صلاۃ الرجال."

  (تقریرات الرافعي علی الدر المختار، ج:2، ص:73، ط:  زکریا)

وفیہ ایضاً:

" قول الشارح: وإلا فیکرہ أي حیث لم یبالوا بمراعات حق المسجد من مسح نخامۃ، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم المساجد بتعلم من ولیھم، فلاکراهة في دخولهم."

 (تقریرات رافعي علی الدر ،ج:2، ص:82،  ط:زکریا)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيان ثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى...و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال:  فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان".

(البحر الرائق ، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:3، ص:416،  ط:دار الفكر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"(سوال  ۱۳۴) ہمارے  یہاں  بعض مصلی اپنے ساتھ چھوٹے بچوں  کو مسجد میں  لاتے ہیں  اور جماعت خانہ میں  بٹھاتے ہیں ، وہ بچے کبھی روتے ہیں ، کبھی شرارت کرتے ہیں  اور گاہے پیشاب بھی کردیتے ہیں ، ان کو کہا جاتا ہے کہ بچوں  کو اپنے ساتھ نہ لاؤ،  اس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے، مگر وہ نہیں  مانتے، ان کی سمجھ میں  آجائے ایسا جواب تحریر فرمائیں ۔ بینواتوجرو ا!

(الجواب)مسجد میں  چھوٹے بچوں  کو لانے کی اجازت نہیں  ، مسجد کاادب و احترام باقی نہ رہے گا اور لانے والے کو بھی اطمینانِ  قلب نہ رہے گا ،نماز میں  کھڑے ہوں  گے مگر خشوع وخضوع نہ ہوگا، بچوں  کی طرف دل لگارہے گا ،حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: "جنبوا مساجد کم صبیانکم و مجانینکم  ..."الخ  اپنی مسجدوں  کوبچوں  اور پاگلوں  سے بچاؤ۔"

(ابن ماجه ص۵۵ باب مایکرہ فی المساجد)

اسی  لیے فقہاء رحمہم اللہ تحریر فرماتے ہیں  کہ مسجد میں  بچوں  کو داخل کرنا اگر اس سے مسجد کے نجس ہونے کا اندیشہ ہوتو حرام ہے، ورنہ مکروہ ہے ،۔

الا شباہ والنظائر میں  ہے:

” ومنها حرمة إدخال الصبیان و المجانین حیث غلب تنجیسھم و إلا فیکرہ.“

(الأشباہ ص ۵۵۷ القول في أحکام المسجد)

"ہاں !  اگر بچہ سمجھ دار ہو، نماز پڑھتا ہو، مسجد کے ادب و احترام کا پاس و لحاظ رکھتا ہوتو کوئی حرج نہیں  ہے، غالباً اسی بنا  پر سات برس کی قید حدیث میں  موجود ہے ۔  وہ نابالغ بچوں  کی صف میں  کھڑا ہے ، اگر صرف ایک ہی بچہ ہوتو وہ بالغوں  کی صف میں  کھڑا ہو سکتا ہے ،مکروہ نہیں  ۔"

(فتاوی رحیمیہ ، ج:9، ص:120،  ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں