بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو دینی تعلیم دینے کی ابتدا کب کی جائے؟


سوال

 دورِ حاضر میں بچوں کو دینی تعلیم کس عمر میں دینا شروع کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ بچہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری انتہائی اہم اور بڑی ذمہ داری ہے،اس لیے کہ اس کی ابتدا اسی وقت سے ہوجاتی ہےجب بچہ پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ ذمہ داری بچے کے ہوشیار ہونے،بالغ ہونے کے قریب کے زمانےاور یہاں تک کہ وہ عاقل ،بالغ اور مکلف ہوجائےاس وقت تک جاری رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نومولود بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کا حکم دیا گیا ہے،تاکہ ابتدا  سے ہی بچہ کو عقیدہ توحید ورسالت کی تلقین ہوجائے،اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"جب تمہاری اولاد بولنے لگےتو ان کو  "لاإلٰه إلا اللّٰه" سکھاؤ اور جب ان کے دودھ کے دانت گرنے لگیں تو ان کو نماز کاحکم دو۔"

لہذا بچہ كو سب سے پهلے "لاإلٰه إلا اللّٰه" کہنے کی تعلیم دی جائےاور اس کے ساتھ ساتھ مربیوں،معلموں اور والدین پر جو تعلیمی ذمہ داری اور فریضہ عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں چاہیےکہ بچہ جب سنِ شعور کو پہنچے تو بنیادی طور پر اس کو قرآن کریم پڑھنے اور سيرتِ نبویہ اور دوسرے علوم شرعیہ اور ادبی قصائد اور عرب کی ضرب الامثال کی تعلیم دی جائے اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ بچہ کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  غزوات(جنگوں)اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم کی سیرت اور عظیم مسلمان قائدوں کی سوانح اور تاریخ میں رقم طراز بہادری کے عظیم  کارناموں کی بھی تعلیم دی جائے،نیز  بچہ کی عمرجب سات سال ہوجائے تواس کو عبادات یعنی نماز،روزہ وغیرہ کا حکم دیا جائے،چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ"اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم کرو اورجب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو اور ان کے بستر الگ الگ کردو"۔اس کے ساتھ ساتھ اس کو حلال اور حرام کے تمام احکامات سکھائے جائیں۔

(ماخوذاز"تربية الأولاد في الإسلام"مؤلفہ :شیخ عبد اللہ ناصح علوانؒ،ج:1،ص:151،158،159،160،268،ط:دار السلام)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی دینی تعلیم کی ابتداء کرنے کی کم سے کم کوئی حد مقرر نہیں ہے،بلکہ وہ تو بچہ کے پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہے،البتہ زیادہ سے زیادہ فقہاء کرام نے اتنی بات کی تصریح فرمائی ہے کہ بچوں کی عمر جب سات سال مکمل ہوجائے تو پھران کی دینی تعلیم کی ابتداء کرنا واجب ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب، قال: وجدت في كتاب جدي الذي حدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أفصح أولادكم فعلموهم ‌لا ‌إله ‌إلا ‌الله، ثم لا تبالوا متى ماتوا، وإذا أثغروا فمروهم بالصلاة»."

(عمل اليوم والليلة لابن السني، باب ما يلقن الصبي إذا أفصح بالكلام، ص:373، ط:دار القبلة)

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مروا الصبيان ‌بالصلاة ‌لسبع سنين، واضربوهم عليها في عشر، وفرقوا بينهم في المضاجع. "

(شعب الإيمان، ج:11، ص:128، ط:مكتبة الرشد)

موسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"وقد صرح الفقهاء بأن وجوب تعليم الصغار يبدأ بعد استكمال سبع سنين، لحديث: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر، وفرقوا بينهم في المضاجع. قال ابن عابدين: الظاهر أن الوجوب بعد استكمال السبع، وينبغي أن يؤمربجميع المأمورات وينهى عن جميع المنهيات.وقال زكريا الأنصاري نقلا عن النووي: يجب على الآباء والأمهات تعليم أولادهم الطهارة والصلاة والشرائع بعد سبع سنين."

(حرف الطاء، طلب العلم، وقت طلب العلم، ج:29، ص:81، ط:دار الصفوة)

الدر المختار میں ہے:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر» قلت والصوم كالصلاة على الصحيح كما في صوم القهستاني معزيا للزاهدي وفي حظر الاختيار أنه يؤمر بالصوم والصلاة وينهى عن شرب الخمر ليألف الخير ويترك الشر."

وفی الرد تحته:

"والظاهر أن الوجوب ‌بعد ‌استكمال ‌السبع. (قوله: قلت إلخ) مراده من هذين النقلين بيان أن الصبي ينبغي أن يؤمر بجميع المأمورات وينهى عن جميع المنهيات.اهـ.ح."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:325، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں