بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو کارٹون دکھانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام فقہ حنفی راجح قول کے مطابق کہ ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، بچوں کو کارٹون دکھانے کے حوالے سے، بچوں کے آج کل جو کارٹون آتے ہیں، اس میں پیچھے میوزک ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے، جب کہ ہمارا مقصد میوزک سنانا نہیں ہوتا، بلکہ کارٹون میں جو مزاحیہ حرکتیں ہیں وہ دکھانا مقصود ہے، جس کو دیکھ کر بچے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں، کئی بار یا اکثر کارٹون میں پیار کرنے کے مناظر آ جاتے ہیں یا کبھی ناچنے ڈانس کے مناظر آ جاتے ہیں یا کبھی لڑائی مار کٹائی کے مناظر آ جاتے ہیں،پیار کرنے کے مناظراور ناچ گانے کے مناظر کو آگے کر دیتے ہیں، بہت سے ایسے کارٹون بھی آتے ہیں جو اصلاحی ہوتے ہیں، جس میں بچوں کو اچھی تربیت والی باتیں سکھائی جاتی ہیں اور کئی کارٹون تعلیمی آتے ہیں، جس میں بچوں کو دنیاوی تعلیم کے کسی شعبہ کے بارے میں سکھایا جاتا ہے، اصلاحی اور تعلیمی کارٹون میں دوسرے کارٹون کی بہ نسبت کم میوزک ہوتا ہے، لیکن ہوتا ضرور ہے،میرے اور میری بیوی کے خاندان میں اور دوست احباب کے گھروں میں بچوں کو کارٹون دکھائے جاتے ہیں، اب اگر بچوں کو ہم کارٹون نہ دکھائیں تو بچے رشتے داروں، دوست احباب کے گھروں میں جا کر دوسرے بچوں کے ساتھ دیکھتے ہیں اور باہر ریسٹورانٹ، دکانوں پر بھی دیکھتے ہیں۔

سوال: ۱۔ کیا کارٹون بڑوں کا، بچوں کا دیکھنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو جائز صورت کیا ہو سکتی ہے؟ گنجائش کا پہلو کیا نکل سکتا ہے؟

۲۔ کیا اصلاحی یا تعلیمی کارٹون بڑوں کا دیکھنا اور بچوں کو دکھانا جائز ہے؟

۳۔ کیا سینیما (CINEMA)میں جا کر کارٹون بڑوں کا دیکھنا اور بچوں کو دکھانا جائز ہے؟

۴۔ کیا بچوں کو میوزک والے کارٹون، میوزک بند کر کے دکھانا جائز ہے؟

۵۔ کیا بچوں کو لڑائی مار کٹائی والے کارٹون، لڑکا لڑکی آپس میں کھیلنے والے کارٹون دکھانا جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر کون سے کارٹون دکھائے جا سکتے ہیں؟

جواب

1، 2، 3، 4، 5 ۔ صورتِ مسئولہ میں  کارٹون چاہے اسلامی عنوان  ہو یا غیرِ اسلامی بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہو یا بچوں کی تفریح کے لیے ہو، عمومًا جان دار کی تصاویر  پر مشتمل ہوتے ہیں ، اور  از روئے شرع کسی بھی جان دار کی تصویر   بنانا، رکھنا ،  دیکھنا اور دکھانا قطعاًجائز نہیں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس، عن أبي طلحة، رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا تصاوير»." 

(کتاب اللباس،باب التصاویر جلد 7 ص: 167 ط: دارطوق النجاۃ)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا سفيان، حدثنا الأعمش، عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون»."

(کتاب اللباس،باب التصاویر جلد 7 ص: 167 ط: دارطوق النجاۃ)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، أن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."

(کتاب اللباس،باب التصاویر جلد 7 ص: 167 ط: دارطوق النجاۃ)

فتاوی شامی میں ہےـ:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها."

(کتاب الصلوۃ،باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیها جلد 1 ص: 647 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں