بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی تنبیہ کی خاطر مالی جرمانہ لینے کا حکم


سوال

پرائیوٹ سکولوں میں بچوں کو متنبہ کرنے کے لیے ان کو مناسب جسمانی سزا دیا جاتا ہے، اگر کوئی بچہ جسمانی سزا کے باوجود وہی کام چوری یا پھر شرارتی رویہ اپناتا ہے تو سکول انتظامیہ ان پر بطور سزا جرمانہ لگاتا ہے۔ جرمانہ مختلف صورتوں میں لیا جاتا ہے مثلا کثرت سے لیٹ آنا، مسلسل اور بار بار غیر حاضری کرنا، مسلسل ہوم ورک وغیرہ میں غفلت کا مظاہرہ کرنا، ٹیسٹوں میں فیل ہونا اور بغیر یونیفارم کے اسکول آنا یا فیس وقت پر جمع نہ کرنا وغیرہ۔

جرمانہ کے بارے میں درج ذیل نکات کی وضاحت درکارہیں۔

۱) درج بالا صورتوں میں بچوں سے جرمانہ لینا کیسا ہے؟

۲) لیا گیا جرمانہ اگر سکول والے اپنے لیے استعمال کرے تو یہ اس کے لیے جائز ہے؟

۳) اس جرمانہ سے بچوں کو پڑھانے کے  لیے استعمال ہونے والی چیزیں مثلا مارکر ، بورڈ  یا دیگر ضروری اشیاء خرید سکتے ہیں؟

۴) اس جرمانہ سے کلاس یا سکول کے  اہل یا با اصول طلبا کے لیے انعامات خرید سکتے ہیں؟

شریعت مطہرہ کی رو سے درجہ بالا نکات کی وضاحت فرماکر شکر گزار بنائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اسکول انتظامیہ جو مذکورہ وجوہ کی بناءپر مالی جرمانہ لیتی ہے یہ شرعا جائز نہیں ہے، نیز  فیس وقت پر جمع نہ کرانے کی صورت میں جرمانہ لینا سود  بھی ہے۔ پس وصول کردہ رقم اسکول کے لیے حلال نہیں ہے۔ جن جن طلباء سے جرمانہ لیا گیا ہے ان کو واپس کرنا ضروری ہے۔ اسکول انتظامیہ والے یہ رقم مذکور مصارف میں سے کسی میں بھی  استعمال نہیں کر سکتے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال."

(کتاب الحدود، باب التعزیر ج نمبر ۴ ص نمبر ۶۱، ایچ ایم سعید)

النتف في الفتاوى  میں ہے:

"وعَلى ذَلِك قَول ابراهيم النَّخعِيّ كل دين ‌جر مَنْفَعَة لَا خير فِيهِ."

(کتاب البیوع، انواع الربا ج نمبر۱ ص نمبر ۴۸۵،مؤسسۃ الرسالۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں