بچوں کی شادیاں کرانا اور اس کا خرچہ کرنا والدین کے ذمہ ہے یا خود بچوں کے ذمہ ہے؟
اولاد (بیٹا ،بیٹی )کے بالغ ہو جانے کے بعد ان کی مناسب جگہ شادی کی فکر وکوشش کرنا والدین کی شرعی ذمہ داری ہے،لیکن بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والد کے ذمہ نہیں رہتا،چناں چہ شادی اور اس کے بعد کے خرچے (جس میں بیوی کا مہر ،نفقہ اور رہائش وغیرہ سب شامل ہیں )بھی والد کے ذمہ نہیں ہیں، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا، اگر شادی میں غیر ضروری رسموں اور فضول خرچی سے بچاجائے تو شادی کا خرچہ اتنا زیادہ اور مشکل نہیں ہے جتنا آج کل سمجھ لیا گیا ہے۔
البتہ اگر والدین اپنے بیٹے کی شادی کے اخراجات میں برضا و خوشی اپنی استطاعت کے مطابق تعاون کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے اپنے بیٹے پر تبرع و احسان ہوگا، اور ان کا یہ عمل باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔
باقی بیٹی کی جب تک شادی نہ ہوجائے، اس وقت تک اس کے تمام اخراجات والد کی حیثیت کےمطابق اس پر واجب ہوتے ہیں، جس میں بیٹی کی شادی میں ہونے والے ضروری اخراجات بھی داخل ہیں۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه."
(کتاب النکاح، باب الولي في النکاح واستیذان المرأة، الفصل الثالث،(939/2) رقم: 3138، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
وفيها أيضا:
"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."
(کتاب النکاح،الفصل الاول،(927/2)،رقم: 3070،ط:دار الکتب العلمیۃ )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے جوانوں کی جماعت!! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی استطاعت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیوں کہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے ؛ کیوں کہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔"۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
" (فليزوجه) وفي معناه التسري (إن بلغ) أي: وهو فقير (ولم يزوجه) أي: الأب وهو قادر (فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد، قال الطيبي - رحمه الله -: أي جزاء الإثم عليه حقيقية ودل هنا الحصر على أن لا إثم على الولد مبالغة لأنه لم يتسبب لما يتفادى ولده من أصابه الإثم."
( كتاب النكاح، باب الولي في النكاح و استئذان المرأة، 5 / 2064، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.
و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، 1 / 562، ط: دار الفكر)
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:
"(و نفقة البنت بالغة) أو صغيرة و لم يذكرها لإغناء الطفل (والابن) البالغ (زمنًا) بفتح الزاي و كسر الميم أي الذي طال مرضه زمانًا كما في المغرب أو الذي لايمشي على رجليه كما في المذهب و كذا أعمى و أشل و غيرهما فقير تجب (على الأب خاصة و به يفتى) هذا ظاهر الرواية."
( باب النفقة، نفقة البنت بالغة أو صغيرة، 1 /498، ط: دار إحياء التراث العربي)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر."
(كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، 5 / 223، ط: دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
ـ"(ولا يطالب الأب بمهر ابنه الصغير الفقير) أما الغني فيطالب أبوه بالدفع من مال ابنه لا من مال نفسه (إذا زوجه امرأة إلا إذا ضمنه) على المعتمد (كما في النفقة) فإنه لا يؤخذ بها إلا إذا ضمن."
(کتاب النکاح،باب المہر3/ 141 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102676
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن